ہفتہ‘ 7؍ جمادی الثانی 1439 ھ ‘ 24؍ فروری 2018ء
’’چودھری دے گھوڑے نے سب نوں اگے لایا ہویا اے‘‘
گزشتہ روز پنجاب ہائوس مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کا اجلاس ہو رہا تھا کہ میاں نواز شریف نے چودھری کے گھوڑے والا لطیفہ سنایا تو زبردست قہقہے لگ گئے۔ لطیفہ تو قارئین کرام کی نظر سے گزر چکا ہو گا اسلئے اس کا اعادہ ضروری نہیں۔ البتہ خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ لیگی رہنمائوں کے اس اجلاس میں گپ شپ ہوئی اور لطیفے سنائے گئے، لیکن میاں صاحب کے لطیفے نے شرکاء کو بڑا محظوظ کیا۔ اس لطیفے کی اتنی پذیرائی ہوئی کہ فوراً ہی اسکی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ حریف تو اپنی طرف سے یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ گزشتہ روز کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں صاحب اندر سے ٹوٹ گئے ہونگے اور اب وہ نہیں اٹھ سکیں گے۔مگر میاں صاحب کے سنائے گئے لطیفہ سے تو یہی اندازہ ہورہا ہے کہ انکا تو کچھ بھی نہیں بگڑا بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ تروتازہ اور پراعتماد ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف میاں صاحب کے مداحوں کے بھی حوصلے بلند ہوئے ہونگے کہ انکا لیڈر تو پہلے سے بھی زیادہ پرعزم نظر آ رہا ہے۔ پنجابی محاورے کیمطابق ’’آپ روئیں گے تو کوئی ساتھ نہیں دیگا، ہنسیں گے تو سارا جگ آپکے ساتھ ہنسے گا‘‘ میاں صاحب کے روئیے سے انکے مداحوں اور وابستگان کو نیا حوصلہ ملے گا۔ تعجب تو ان خوش فہموں پر ہے جو فیصلہ سن کر جشنِ طرب و رقص و سرود مناتے پائے گئے۔ ایسے لوگوں سے کیا شکوہ جن کی نگاہیں میاں نواز شریف سے آگے دیکھنے سے قاصر ہیں! تنگ دلی اور بغض کے مظاہرے اکثر ادھر ادھر دیکھنے میں آتے ہیں بلکہ تواریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں لیکن ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جہاں پر ایسی سوچ پائی جاتی ہو کہ ’’سنجیاں ہوون گلیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘
…٭…٭…٭…٭…
شادمان چوک کو بھگت سنگھ کے نام منسوب کرنے کیلئے عدالتی چارہ جوئی
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد جمیل خان نے بھگت سنگھ میموریل فائونڈیشن کے چیئرمین کی درخواست کی سماعت کے دوران اس مسئلے پر تمام درخواستوں کو یکجا کرنے کی ہدایت کی ہے، درخواست گزار کے وکیل کیمطابق بھگت سنگھ فریڈم فائٹر تھا جسے کیمپ جیل شادمان چوک میں پھانسی دی گئی۔ آزادی کی جنگ میں ہندوستان کی تمام اقوام نے حصہ لیا لیکن انصاف سے دیکھا جائے تو اس باب میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ حتیٰ کہ تقسیم کے وقت ہندوستان میں لاکھوں مسلمان ہم وطن ہندوئوں اور سکھوں کی بربریت کا شکار ہوئے، ہزاروں خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں۔ بچوں تک کو معاف نہیں کیا گیا۔ وحشیوں نے انہیں نیزوں پر اچھالا۔ مسلمانوں کے قتل عام میں ہندو زیادہ ملوث تھے یا سکھ قطع نظر اسکے‘ بحث سے ہر دو نے بربریت کے مظاہرے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جن لوگوں نے آزادی کی راہ میں جانیں دیں انکی قربانیوں کا اعتراف ہونا چاہئے، ادارے، سڑکیں اور چوک انکے نام سے منسوب کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن جیسا کہ قائداعظم اور گاندھی جی کے طرزِ سیاست اور مزاجوں میں فرق تھا بالکل یہی فرق مسلمانوں، ہندوئوں اور سکھوں کی جدوجہد میں بھی تھا۔ مسلمانوں نے پاکستان کیلئے مشکلیں جھیلیں اور مصیبتیں اٹھائیں اور دیگر فرقوں نے اکھنڈ بھارت کیلئے۔ شاید ہی کوئی ہندو یا سکھ ہو گا جس نے پاکستان کیلئے انگریزوں سے لڑائی لڑی ہو۔ شادمان چوک کو بھگت سنگھ کے نام ضرور منسوب کرنے سے پہلے حقائق کو بھی پیش نظر رکھیں۔
نواز شریف تو عمران کی شادیوں سے بھی زیادہ بار نااہل ہو گئے۔ امریکی کامیڈین جیریمی میکلن
امریکی کامیڈین کا تبصرہ تو دلچسپ ہے لیکن موازنہ کرنے میں موصوف سے سہو ہوئی ہے۔ کجا شادیاں، کجا عدالتی فیصلے۔ جیریمی میکلن اگر اس تبصر کو ٹوئٹر پر ڈالنے سے پہلے غور کر لیتے تو JOKE کو معنی خیز بھی بنا سکتے تھے۔ عمران خان نے پہلی باضابطہ شادی برٹش ارب پتی یہودی گولڈ سمتھ کی صاحبزادی جمائما سے کی، جو گیارہ سال چلی۔ اس شادی کے نتائج، عمران خان کے دو بیٹے اور جمائما کے نام کے ساتھ خان کا اضافہ۔ دوسری شادی گزشتہ برس بی بی سی کی اینکر ریحام خاں سے کی جو دس یا گیارہ ماہ چلی۔ یہ شادی دونوں کے لئے اپنے پیچھے تلخ و ترش یادیں چھوڑ گئی۔ خاں صاحب نے تیسری اور غالباً آخری شادی یکم جنوری کو مطلقہ ، خاتون جو زیادہ تر پیرنی کے لقب سے یاد کی جاتی ہیں، بشریٰ مانیکا سے کی۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ہم نے بھی اس شادی کو طرفین کے لئے خیرو برکت کا موجب ہونے کی دُعا دی۔ رہ گئے نواز شریف، اُنہیں گزشتہ سال سپریم کورٹ نے نااہل کیا۔ تب سے وہ پوچھتے پھر رہے ہیں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ ابھی وہ اس سوال کی تلاش میں سرگرداں تھے کہ عدالت نے اُن کو پارٹی صدارت سے بھی نااہل قرار دے دیا اور اس عرصے میں اُن کے کئے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں لیڈروں کو لاکھوں جانثاروں کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ دونوں سیاست میں بڑے سرگرم ہیں لیکن یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے کہ فارسی شاعر کے مطابق ’’وہ اورمجنوں مدرسے میں ہم جماعت تھے لیکن مجنوں نے سند فضیلت حاصل کر کے صحرا کا رُخ کیا اور میں گلیوں ا ور کوچوں میں رسوا ہوتا پھر رہا ہوں‘‘ صحرا نوروی اور کوچوں اور گلیوں میں رسوائی کے بغیر کوئی عاشق کاملیت کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہمارے دونوں ممدوحین میں سے ایک نے نشاط و طرب کی راہ چنی، دوسرے نے عدالتوں سے نااہلی کے فیصلے پائے۔ اب فیصلہ تاریخ کرے گی کہ کون کامیاب رہا۔
…٭…٭…٭…٭…
پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ خواجہ سرا، ایم پی اے اور ایم این اے کا الیکشن لڑ سکیں گے
عدالت عالیہ نے اگرچہ فیصلہ تو دے دیا ہے، لیکن ساتھ ہی ، اس رٹ پٹیشن پر الیکشن کمشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔ خواجہ سرا بڑا مظلوم طبقہ ہے، انہیں جنم دینے والے ہی انہیں دربدر کی ٹھوکریں کھانے کیلئے زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ خواجہ سرائوں نے بڑی کوششوں کے بعد نادرا سے شناختی کارڈ بنوانے کا حق حاصل کیا، جسکے ساتھ ہی اُنہیں خود بخود ووٹ ڈالنے کا بھی حق حاصل ہو گیا۔ اگر خواجہ سرا صنفی تکمیل سے محروم ہیں تو اس میں اُن کا کیا قصور ہے یہ تو قدرت کے کام ہیں، جن پر اعتراض کی گنجائش نہیں‘ آخر وہ بھی انسان ہیں۔ ان میں سے جنہیں رب توفیق دیتا ہے، وہ حج اور عمرے بھی کر لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک خبر میں بتایا گیا کہ سعودی حکومت خدام الحجاج کے طور پر ان کی خدمات حاصل کریگی۔ خواجہ سرائوں میں بوبی الماس نے بڑی شہرت پائی۔ موصوف یا موصوفہ نے خواجہ سرائوں کے حقوق کیلئے بھی بڑی جدوجہد کی۔ خواجہ سرائوں کو چوکوں اور گلی کوچوں میں بھیک مانگنے کیلئے چھوڑ دینا شقاوت قلبی ہے۔ صوبائی حکومتوں کو خواجہ سرا بحالی کے نام سے ادارے قائم کرنے چاہئیں جو انہیں تعلیم و تربیت دیں اور ہُنر سکھائیں، تاکہ وہ بھی مفید شہری بن کر وطن عزیز کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔