پاکستان کے بااثر سیاستدان ریاست، سیاست اور جمہوریت کا یہ بنیادی اُصول تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ آئین بالادست ہوتا ہے اور جس ریاست میں آئین کی حکمرانی نہ ہو وہ مجرموں اور مافیاز کا گڑھ بن جاتی ہے۔ گزشتہ ستر سال سے پاکستان میں طاقت کا قانون رائج رہا ہے۔ اب خدا کا خوف رکھنے اور پاکستان سے محبت کرنیوالے محترم ججوں نے قانون کی طاقت سے ریاست کا قبلہ درست کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
آئین اور قانون کا احترام نہ کرنیوالے سیاستدانوں کو اپنے سیاسی اور مالی مفادات خطرے میں نظر آنے لگے ہیں لہذا انہوں نے عدلیہ سے تصادم شروع کردیا ہے اور سادہ لوح عوام کو بطور ڈھال استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان کا آئین اپنے تمہیدی باب کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اگر تمہید کو آئین سے الگ کردیا جائے تو آئین سے اسلام کی روح، ایمانیات اور عوام کی تمنائیں اور خواہشات ہی ختم ہوجائیں گی اور مفاد پرست افراد آئین کو بطور ڈھال استعمال کرنا شروع کردینگے۔ آئین پاکستان کی تمہید میں درج ہے ’’چوں کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔
پاکستان کے جمہور کو یہ اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے چوں کہ پاکستان کے جمہور کی منشا ہے کہ ایک ایسا نظام نافذ کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کریگی جس میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اُصولوں پر جس طرح اسلام نے انکی تشریح کی ہے پوری طرح عمل کیا جائیگا جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائیگی اور یہ حقوق قانون اور اخلاق عامہ کے تابع ہونگے‘‘۔
اس تمہید سے واضح ہوجاتا ہے کہ آئین کے تمام آرٹیکلز پر عملدرآمد اور انکی تشریح اسلام ( قرآن و سنت) کی روح اور اخلاقیات عامہ کے مطابق کی جائیگی۔ سینکڑوں مثالیں ریکارڈ میں موجود ہیں کہ حکمران اشرافیہ آئین کی روح کے منافی فیصلے کرتی رہی۔ ووٹ دینے والے عوام چوں کہ جنون کی حد تک شخصیت پرستی میں مبتلا ہوچکے ہیں اس لیے وہ پسندیدہ افراد کی خاطر اللہ، قرآن اور سنت کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔ میاں نواز شریف اگر آئین پر صدق دل سے عمل کرتے تو عدلیہ کبھی ان کو بددیانت قراردیکر وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ نہ کرتی۔ نااہلی کے بعد بھی میاں صاحب کی اقتدار اور اختیارات کی ہوس ختم نہ ہوئی انہوں نے قرآن اور سنت کے بنیادی اُصولوں اور اخلاقیات کو نظر انداز کرتے ہوئے پر اسرار طور پر مروجہ قانون میں آئین کے برعکس قومی اسمبلی اور سینٹ سے ترمیم کروالی تاکہ وہ مسلم لیگ(ن) کی صدارت کے اہل بن سکیں۔
یہ ترمیم اسلامی اخلاقیات کے منافی فرد واحد کیلئے شخصی نوعیت کی ترمیم تھی جس کی مثال دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جب کوئی لیڈر عدلیہ سے بددیانت قراردیا جائے تو پھر وہ پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ میاں صاحب اگر رہبر بن کر رہتے اور مسلم لیگ(ن) کا صدر جماعت کے کسی دوسرے رکن کو نامزد کردیتے تو ان کو سپریم کورٹ کے تازہ تاریخ ساز فیصلے کے بعد خفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
مسلم لیگ(ن) کے لیڈروں نے عدلیہ کے ججوں کو ڈرانے اور دھمکانے کی بہت کوشش کی مگر جن افراد کے دلوں میں اللہ کا خوف ہو وہ ڈرا نہیں کرتے۔ مرد قلندر چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں محترم جسٹس عمر عطا بندیال اور محترم جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بولتا فیصلہ سناتے ہوئے انتخابی اصلاحات 2017ء میں کی گئی ترمیم کو آئین کے منافی قرار دیا ہے اور میاں نواز شریف کے بطور صدر مسلم لیگ(ن) تمام فیصلوں کو غیر قانونی قرار دیکر کالعدم کردیا ہے۔
سپریم کورٹ نے نتائج کی پروا کیے بغیر اپنے یادگار فیصلے سے ریاست پر آئین کی رٹ نافذ کردی ہے اور حکمران اشرافیہ کو توانا پیغام دیا ہے کہ ان کو ہر صورت آئین کے تابع آنا پڑیگا۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کو اس خوش فہمی سے باہر نکل آنا چاہیے کہ وہ اگلے انتخابات میں دوتہائی اکثریت حاصل کرکے آئین میں اپنی من پسند ترامیم کرسکیں گے کیونکہ سیاسی اور جماعتی مفادات کے تحفظ کیلئے ریاستی اداروں کو کمزور کرنے یا ان کو دبائو میں لانے کیلئے آئین میں جو ترامیم بھی کی جائیں گی عدلیہ ان کو بھی خلاف آئین قرار دیکر مسترد کر سکتی ہے۔ کیونکہ آخری فیصلہ سپریم کورت کو ہی کرنا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ پہلے بھی پارلیمنٹ کی ترامیم کو خلاف آئین قرار دے چکی ہے۔ امریکہ اور بھارت کی عدالتی تاریخ میں درجنوں نظیریں موجود ہیں کہ عدلیہ نے پارلیمنٹ کی ترامیم اور قوانین کو خلاف آئین قرار دیدیا۔ آئین عدلیہ کو جوڈیشل ریویو کا اختیار دیتا ہے جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ بھارت کے چیف جسٹس نے بھی اپنی حالیہ آبزرویشن میں قرار دیا ہے کہ کوئی مجرم پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔
آئین کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلئے لازم ہے کہ طاقتور لوگوں کو آئین کے دائرے میں لایا جائے۔ حکمران اشرافیہ کو ہر صورت آئین کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ان کو سیاست ترک کرنا پڑیگی۔ اب ریاست من مانے فیصلوں اور آئین و قانون سے انحراف کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے پاکستان کی سیاست اور گورنینس پر مثبت اثرات پڑینگے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کی روایت مستحکم ہوگی البتہ مسلم لیگ(ن) کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ الیکشن کمشن نے مسلم لیگ(ن) کے اُمیدواروں کو آزاد ڈکلیر کردیا ہے۔ سینٹ کے انتخابات شیڈول کیمطابق ہوں گے۔
مسلم لیگ(ن) کے سینٹرز منتخب ہونے کے بعد اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے رہیں گے البتہ چند دوسری جماعتوں کا رخ بھی کرسکتے ہیں۔ میاں نواز شریف مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما رہیں گے۔
مفکر فریڈرک نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ’’جب کسی سماج میں لوٹ مار بااثر گروپ کی زندگی کا چلن بن جائے تو وہ رفتہ رفتہ اپنے لیے سازگار قانونی نظام وضع کرلیتا ہے جو ان کو بااختیار بنا دیتا ہے اور ایسا اخلاقی ضابطہ وجود میں آجاتا ہے جو قومی لٹیروں کو محترم بنا دیتا ہے‘‘۔ آئی بی کے سابق ایڈیشنل ڈی جی اور مؤرخ و محقق میجر (ر) شبیر احمد کہتے ہیں کہ 1973ء کا آئین پاکستانی ہے جبکہ ریاست کے دیوانی اور فوجداری قوانین انگریز کے بنائے ہوئے ہیں جب تک اس بنیادی تضاد کو ختم نہیں کیا جاتا گورنینس کے مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکتا اور نہ ہی شفاف احتساب اور قانون کی حکمرانی کی روایت قائم ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے لیڈروں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو جمہوری اقتدار کے منافی قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عدلیہ آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دیتی رہی ہے۔ یادرہے کہ پارلیمنٹ بھی آمروں کی آئینی ترامیم آٹھویں اور سترویں کی توثیق کرتی رہی ہے۔
ماضی میں گم رہنے سے حالات تبدیل نہیں ہوں گے موجودہ حالات کا تجزیہ حال کے تناظر میں کیا جانا چاہیئے۔ اگر اخلاقی اور جمہوری اقدار کی پاسداری کی جاتی تو پاکستان آج بہت بہتر حالت میں ہوتا۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستان کو نومولود بچوں کیلئے انتہائی خطرناک ملک قرار دیا ہے۔ ہر بائیس میں سے ایک بچہ صحت کی معیاری سہولتیں نہ ہونے کی بناء پر ایک ماہ کی عمر تک پہنچنے سے پہلے فوت ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دس سال کے دوران تشویشناک حد تک بیرونی قرضے لیے گئے۔
ریاست کے ائیرپورٹ اور موٹر ویز بھی گروی رکھے جاچکے ہیں۔ تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل ملز آج بھی خسارے میں ہیں۔ سرکلر ڈیٹ 500ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے عوام آلودہ (زہریلا) پانی پینے پر مجبور ہیں۔
پاکستان کو اپنی سلامتی کے خطرات لاحق ہیں حکمران اشرافیہ کا ریکارڈ شرمناک ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا تین بار وزیراعظم رہنے والے لیڈر کو کسی بھی مہم جوئی سے گریز کرنا چاہیئے۔ ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ریاست اور مسلم لیگ(ن) دونوں کو خسارہ ہوگا۔ پاکستان میں لاقانونیت پھیلے گی عوام اپنے لیڈروں کی پیروی کرتے ہوئے عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرینگے اور پاکستان جنگل کی ریاست بن جائیگا۔ پاکستان کے عوام اللہ کی رضا کیلئے ریاست کے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور شخصیات کیلئے اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024