تمثیل:۔ یارو (اے لوگو) کسی قاتل (لیڈر حکمران) سے کبھی پیار (خیر اور بھلائی) کی امید اور آس نہ رکھو۔ رومانیت پرست شاعر قتیل شفائی نے تو محبوب کی سنگدلی‘ بے رخی اور ستمگری سے تنگ آکر راہ عشق کے تمام مسافروں کو پندو نصائح کے ذریعے عشق و محبت کے المناک انجام سے آگاہ کرنے کی سعی کی ہے مگر دنیائے سیاست میں حقیقی لیڈر اور عوام کے مابین بھی گہرا رومانس اور عشق و محبت کا سچا جذبہ موجود ہوتا ہے۔
عوام اپنے محبوب لیڈر کی محبت میں سرشار اور غرقاب ہوتے ہیں اور اسکے ساتھ وفا کی ڈوری سے بندھے ہر لمحہ اس کیلئے دل و جاں کو اپنی ہتھیلی پر سجائے رکھتے ہیں۔ بااصول اور باوفا رہنما اور امام عوام کے ان جذبات کی قدر پورے خلوص سے کرتا ہے‘ وہ اپنا تن‘ من‘ دھن عوام کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر دیتا ہے۔ عوام اور لیڈر کے دلوں میں جب سچے جذبوں کی آبیاری ہوتی ہے تو قوم اپنے محبوب لیڈر کی رہنمائی میں اپنی حقیقی منزل پر ضرور پہنچ جاتی ہے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ ماوزے تنگ‘ امام خمینی‘ مرنے کے بعد بھی عوام کے دلوں میں پورے عزت اور احترام کیساتھ حیات جاوداں حاصل کر چکے ہیں۔ نیلسن منڈیلا‘ ڈاکٹر مہاتیر‘ لی کوان‘ ہیوگو شاویز‘ عبداللہ گل اپنی زندگی ہی میں عوام کیلئے لیجنڈ (Legend) بن چکے ہیں کیونکہ وہ بے لوث اور بے ریا ہیں۔ عوام کی خاطر وہ اپنی ذاتی زندگی کی نفی کر چکے ہیں۔ وہ اپنے ذاتی اور خاندانی کاروباری مفادات کے حصول کو قطعاً اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ وہ اپنی نسلوں کی سات پشتوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے دولت کے انبار غیر ملکی بنکوں میں نہیں رکھتے ہیں۔ انکا سرمایۂ حیات عوام کا عشق ہے۔ ایسے ہی عظیم رہنماؤں کیلئے علامہ اقبال ؒنے کہا ہے …؎
نگہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
کیا ہماری قسمت میں بھی کوئی عبداللہ گل یا ہیوگوشاویز ہے یا نہیں؟
کیا ہمارے رہنما نیلسن منڈیلا بن سکتے ہیں؟ کیا وہ قومی رہنما ہوتے ہوئے اپنے ذاتی کاروباروں کو ختم کر سکتے ہیں؟ کیا وہ قوم کو وہ اسی ارب ڈالر لوٹا سکتے ہیں جو ہمارے سیاستدانوں‘ جرنیلوں‘ بیورو کریٹس کے غیر ملکی بنکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
چلیں وہ اپنی پرانی لوٹ کھسوٹ والی دولت عوام کو نہیں لوٹا سکتے ہیں تو آئندہ اپنی شخصی حیثیت یا بطور صدر‘ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ یا وفاقی وزیر ہونے کے ناطے اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے زمینوں کا کاروبار‘ سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری‘ نجکاری اثاثوں میں کمیشن اور سرکاری سودوں میں کک بیکس لینے سے اجتناب تو کر سکتے ہیں مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
پاکستان کی اکثریتی پارٹیوں کے رہنما اپنی حکومتی پوزیشن کے ذریعے ہر جگہ ہر لمحہ اور ہر وقت کاروباری لین دین میں مصروف عمل ہیں۔ سرکاری عہدے نیلام ہوتے ہیں۔ انتظامی عہدے انہی کو ملتے ہیں جو اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرتے ہیں۔ راولپنڈی کا ایک پٹواری اس قدر طاقتور ہے کہ وہ سرعام اعلیٰ پولیس افسروں کی نہ صرف تذلیل کرتا ہے بلکہ سرعام زدوکوب کرنے کے بعد انکے ٹرانسفر بھی کروا دیتا ہے۔
گوجرانوالہ میں تعینات ایس پی اطہر وحید نے گورنر سلمان تاثیر کے حکم پر نواز شریف کے لانگ مارچ کو روکنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ پنڈی میں تعینات ہوئے تو انہوں نے ایک ٹریفک انسپکٹر کو زدوکوب کرنے پر انوکھے لاڈلے پپو پٹواری کے خلاف انکوائری رپورٹ آئی جی پولیس کو بھجوا دی۔ آج یہ بااصول ایس پی معطل ہے جس کی اصول پسندی کی تعریف میاں نواز شریف نے لانگ مارچ کے دوران اپنی تقریر میں کی تھی۔
معطل ایس پی اس قدر دلگرفتہ ہے کہ اس نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ اگر اسکے ساتھ انصاف نہ کیا گیا تو وہ اپنی ملازمت سے نہ صرف استعفیٰ دے دیگا بلکہ پاکستان کو بھی ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیگا‘ ترقی یافتہ ممالک میں قانون اور انصاف کی حکمرانی کیلئے وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیوی کو بھی ریلوے میں بلا ٹکٹ سفر کرنے پر جرمانہ کر دیا جاتا ہے۔
برطانیہ کے ایک وزیر نے منشیات استعمال کرنے پر اپنے بچے کو خود پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ پاکستان کے عوام اور سیاسی پارٹیوں کے کارکن فریب آرزو میں مبتلا ہیں وہ حکمرانوں کیساتھ یکطرفہ عشق نبھا رہے ہیں۔ وہ زرداریوں‘ گیلانیوں‘ شریفوں کی خاطر جان و مال کو قربان کر رہے ہیں کہ شاید انکی نسلوں کی قسمت بدل جائے وہ صحرا میں راہ منزل کے نشاں تلاش کر رہے ہیں اور سیاست کے ہر سراب کو نخلستان سمجھ کر اپنے من کی پیاس بجھانے کیلئے آس کے دیپ آنکھوں میں سجائے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں مگر ان سادہ لوح سیاسی کارکنوں اور مجبور اور مقہور عوام کو کون سمجھائے…؎
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
وہ حضرت قائداعظم ؒکے افکار اور نظریات کے تو وارث بننے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کیا قائد کی طرح وہ بھی اپنی جائیداد ان تعلیمی اداروں کے نام وقف کر دینگے جہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ نہیں جناب نہیں۔ ہمارا ایسا ظرف اور حوصلہ کہاں کہ قوم کیلئے اپنے ذاتی اثاثوں کی قربانی دیں ہم تو بلیو آنکھوں والے اعلیٰ اور ارفع اشرافیہ ہیں۔ عوام کو ہماری سیاسی بادشاہت نسل در نسل برقرار رکھنے کیلئے قربانی دیتے رہنا ہے۔
جاوید ہاشمی ’’ہاں میں باغی ہوں‘‘ کی جتنی بھی آواز بلند کریگا وہ مرغ خوشنما کی بانگ ہے۔ کسی مجاہد کی بانگ درا نہیں ہے لہٰذا ہمیں قتیل شفائی کی آواز پر کان دھرنا چاہئے…؎
یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لئے تلوار نہ مانگو
گر جاؤ گے تم اپنے مسیحا کی نظر سے
مر کر بھی علاج دل بیمار نہ مانگو
اس چیز کا کیا ذکر جو ممکن ہی نہیں ہے
صحرا میں کبھی سایۂ دیوار نہ مانگو
تصحیح:۔ گذشتہ کالم میں کمپوزنگ میں ایک فقرہ حذف ہونے سے مفہوم غیر واضح ہو گیا تھا قارئین یہ فقرہ اس طرح پڑھیں:
’’اگر نواز شریف سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کی عملداری کیلئے لانگ مارچ کی دھمکی دیں گے تو اگر سپریم کورٹ نے موجودہ حکمرانوں کیخلاف کوئی بھی فیصلہ دیا تو یہ سمجھا جائیگا کہ یہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی سندھ اور چھوٹے صوبوں کی قیادت کیساتھ زیادتی ہے۔‘‘
عوام اپنے محبوب لیڈر کی محبت میں سرشار اور غرقاب ہوتے ہیں اور اسکے ساتھ وفا کی ڈوری سے بندھے ہر لمحہ اس کیلئے دل و جاں کو اپنی ہتھیلی پر سجائے رکھتے ہیں۔ بااصول اور باوفا رہنما اور امام عوام کے ان جذبات کی قدر پورے خلوص سے کرتا ہے‘ وہ اپنا تن‘ من‘ دھن عوام کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر دیتا ہے۔ عوام اور لیڈر کے دلوں میں جب سچے جذبوں کی آبیاری ہوتی ہے تو قوم اپنے محبوب لیڈر کی رہنمائی میں اپنی حقیقی منزل پر ضرور پہنچ جاتی ہے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ ماوزے تنگ‘ امام خمینی‘ مرنے کے بعد بھی عوام کے دلوں میں پورے عزت اور احترام کیساتھ حیات جاوداں حاصل کر چکے ہیں۔ نیلسن منڈیلا‘ ڈاکٹر مہاتیر‘ لی کوان‘ ہیوگو شاویز‘ عبداللہ گل اپنی زندگی ہی میں عوام کیلئے لیجنڈ (Legend) بن چکے ہیں کیونکہ وہ بے لوث اور بے ریا ہیں۔ عوام کی خاطر وہ اپنی ذاتی زندگی کی نفی کر چکے ہیں۔ وہ اپنے ذاتی اور خاندانی کاروباری مفادات کے حصول کو قطعاً اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ وہ اپنی نسلوں کی سات پشتوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے دولت کے انبار غیر ملکی بنکوں میں نہیں رکھتے ہیں۔ انکا سرمایۂ حیات عوام کا عشق ہے۔ ایسے ہی عظیم رہنماؤں کیلئے علامہ اقبال ؒنے کہا ہے …؎
نگہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
کیا ہماری قسمت میں بھی کوئی عبداللہ گل یا ہیوگوشاویز ہے یا نہیں؟
کیا ہمارے رہنما نیلسن منڈیلا بن سکتے ہیں؟ کیا وہ قومی رہنما ہوتے ہوئے اپنے ذاتی کاروباروں کو ختم کر سکتے ہیں؟ کیا وہ قوم کو وہ اسی ارب ڈالر لوٹا سکتے ہیں جو ہمارے سیاستدانوں‘ جرنیلوں‘ بیورو کریٹس کے غیر ملکی بنکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
چلیں وہ اپنی پرانی لوٹ کھسوٹ والی دولت عوام کو نہیں لوٹا سکتے ہیں تو آئندہ اپنی شخصی حیثیت یا بطور صدر‘ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ یا وفاقی وزیر ہونے کے ناطے اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے زمینوں کا کاروبار‘ سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری‘ نجکاری اثاثوں میں کمیشن اور سرکاری سودوں میں کک بیکس لینے سے اجتناب تو کر سکتے ہیں مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
پاکستان کی اکثریتی پارٹیوں کے رہنما اپنی حکومتی پوزیشن کے ذریعے ہر جگہ ہر لمحہ اور ہر وقت کاروباری لین دین میں مصروف عمل ہیں۔ سرکاری عہدے نیلام ہوتے ہیں۔ انتظامی عہدے انہی کو ملتے ہیں جو اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرتے ہیں۔ راولپنڈی کا ایک پٹواری اس قدر طاقتور ہے کہ وہ سرعام اعلیٰ پولیس افسروں کی نہ صرف تذلیل کرتا ہے بلکہ سرعام زدوکوب کرنے کے بعد انکے ٹرانسفر بھی کروا دیتا ہے۔
گوجرانوالہ میں تعینات ایس پی اطہر وحید نے گورنر سلمان تاثیر کے حکم پر نواز شریف کے لانگ مارچ کو روکنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ پنڈی میں تعینات ہوئے تو انہوں نے ایک ٹریفک انسپکٹر کو زدوکوب کرنے پر انوکھے لاڈلے پپو پٹواری کے خلاف انکوائری رپورٹ آئی جی پولیس کو بھجوا دی۔ آج یہ بااصول ایس پی معطل ہے جس کی اصول پسندی کی تعریف میاں نواز شریف نے لانگ مارچ کے دوران اپنی تقریر میں کی تھی۔
معطل ایس پی اس قدر دلگرفتہ ہے کہ اس نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ اگر اسکے ساتھ انصاف نہ کیا گیا تو وہ اپنی ملازمت سے نہ صرف استعفیٰ دے دیگا بلکہ پاکستان کو بھی ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیگا‘ ترقی یافتہ ممالک میں قانون اور انصاف کی حکمرانی کیلئے وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیوی کو بھی ریلوے میں بلا ٹکٹ سفر کرنے پر جرمانہ کر دیا جاتا ہے۔
برطانیہ کے ایک وزیر نے منشیات استعمال کرنے پر اپنے بچے کو خود پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ پاکستان کے عوام اور سیاسی پارٹیوں کے کارکن فریب آرزو میں مبتلا ہیں وہ حکمرانوں کیساتھ یکطرفہ عشق نبھا رہے ہیں۔ وہ زرداریوں‘ گیلانیوں‘ شریفوں کی خاطر جان و مال کو قربان کر رہے ہیں کہ شاید انکی نسلوں کی قسمت بدل جائے وہ صحرا میں راہ منزل کے نشاں تلاش کر رہے ہیں اور سیاست کے ہر سراب کو نخلستان سمجھ کر اپنے من کی پیاس بجھانے کیلئے آس کے دیپ آنکھوں میں سجائے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں مگر ان سادہ لوح سیاسی کارکنوں اور مجبور اور مقہور عوام کو کون سمجھائے…؎
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
وہ حضرت قائداعظم ؒکے افکار اور نظریات کے تو وارث بننے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کیا قائد کی طرح وہ بھی اپنی جائیداد ان تعلیمی اداروں کے نام وقف کر دینگے جہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ نہیں جناب نہیں۔ ہمارا ایسا ظرف اور حوصلہ کہاں کہ قوم کیلئے اپنے ذاتی اثاثوں کی قربانی دیں ہم تو بلیو آنکھوں والے اعلیٰ اور ارفع اشرافیہ ہیں۔ عوام کو ہماری سیاسی بادشاہت نسل در نسل برقرار رکھنے کیلئے قربانی دیتے رہنا ہے۔
جاوید ہاشمی ’’ہاں میں باغی ہوں‘‘ کی جتنی بھی آواز بلند کریگا وہ مرغ خوشنما کی بانگ ہے۔ کسی مجاہد کی بانگ درا نہیں ہے لہٰذا ہمیں قتیل شفائی کی آواز پر کان دھرنا چاہئے…؎
یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لئے تلوار نہ مانگو
گر جاؤ گے تم اپنے مسیحا کی نظر سے
مر کر بھی علاج دل بیمار نہ مانگو
اس چیز کا کیا ذکر جو ممکن ہی نہیں ہے
صحرا میں کبھی سایۂ دیوار نہ مانگو
تصحیح:۔ گذشتہ کالم میں کمپوزنگ میں ایک فقرہ حذف ہونے سے مفہوم غیر واضح ہو گیا تھا قارئین یہ فقرہ اس طرح پڑھیں:
’’اگر نواز شریف سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کی عملداری کیلئے لانگ مارچ کی دھمکی دیں گے تو اگر سپریم کورٹ نے موجودہ حکمرانوں کیخلاف کوئی بھی فیصلہ دیا تو یہ سمجھا جائیگا کہ یہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی سندھ اور چھوٹے صوبوں کی قیادت کیساتھ زیادتی ہے۔‘‘