عمران خان بمقابلہ وزیرِ اعظم عمران خان

Dec 24, 2024

ڈاکٹر ناصر خان 

ڈاکٹر ناصر خان

عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران ہمیشہ ایک مضبوط اور جذباتی بیانیہ قائم کیا، جو عوام کو متاثر کرنے کے لیے موزوں تھا۔ انہوں نے کرپشن کے خلاف نعرے بلند کیے، نئے پاکستان کا خواب دکھایا، اور انصاف کی فراہمی کو اپنا نصب العین بنایا۔ لیکن عملی طور پر ان کے منصوبے اکثر ایسے فیصلوں پر مبنی رہے جو نہ صرف غیر مستحکم تھے بلکہ معیشت، سماجی ترقی اور بین الاقوامی تعلقات پر منفی اثر ڈالنے والے ثابت ہوئے۔ مہنگائی، بے روزگاری، اور معیشت کی کمزوری جیسے مسائل نے ان کی حکومت کے دوران سنگین شکل اختیار کی۔ یہ تاثر مضبوط ہوا کہ عمران خان کے بیانیے میں عملی حکمت عملی اور حقیقت پسندانہ سوچ کی کمی تھی، جس کے نتیجے میں ان کے بیشتر اقدامات تباہ کن ثابت ہوئے۔
عمران خان نے سیاست کو ایک نظریاتی جنگ میں تبدیل کیا اور عوام کے جذبات کو متاثر کرنے کے لیے اپوزیشن پر سخت تنقید اور جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ لیکن جب ملک کی ترقی کے لیے عملی کام کرنے کا وقت آیا تو ان کی کارکردگی اکثر سوالیہ نشان بنی رہی۔ بڑے ترقیاتی منصوبے، ادارہ جاتی اصلاحات اور پالیسیز جو عوام کی زندگی بہتر بنا سکیں، ان کی حکومت کے دوران کمزور یا غیر موجود نظر آئیں۔ ان کی حکومت کے دوران بلند و بانگ دعوے تو کیے گئے، لیکن ان دعووں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اس کے نتیجے میں عوام کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اور ان کی حکومت کا اختتام ایک مایوسی کی فضا میں ہوا۔
عمران خان کی حکومت کے دوران معاشی بحران ایک نمایاں مسئلہ رہا جس کا براہ راست اثر عوام کی زندگیوں پر پڑا۔ افراط زر کی شرح بھی مسلسل بڑھتی رہی اور 2018 میں 5.1 فیصد کے مقابلے میں 2022 میں 12.2 فیصد تک پہنچ گئی، جس نے عام آدمی کی قوتِ خرید کو متاثر کیا۔ روپے کی قدر بھی بری طرح متاثر ہوئی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 2018 میں 124 روپے سے کم ہو کر 2022 میں 240 روپے تک گر گئی۔ ان معاشی اعداد و شمار نے واضح طور پر عمران خان کی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی کی نشاندہی کی اور عوام کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا دیا۔
عمران خان کی حکومت کے دوران بیرونی قرضوں میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ 2018 میں پاکستان کے بیرونی قرضے تقریباً 95 ارب ڈالر تھے، جو 2022 تک بڑھ کر 126 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے۔ اس کے علاوہ، عمران خان کی حکومت میں مہنگائی کی وجہ سے غربت کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں غربت کی شرح 24.3 فیصد سے بڑھ کر 39.3 فیصد تک پہنچ گئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً 5 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان اعداد و شمار نے عوام کے اعتماد کو شدید دھچکا پہنچایا اور ان کی حکومت کے "نئے پاکستان" کے خواب کو ایک حقیقت بنانے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا۔
اگر عمران خان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کی بات کی جائے تو وہ بھی مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی۔ بھارت کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہوئے، اور مسئلہ کشمیر پر کوئی موثر سفارتی حکمت عملی سامنے نہ آسکی۔ 2019 میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، جس کے خلاف پاکستان کی عالمی سطح پر آواز اٹھانے کی کوشش کمزور اور غیر موثر رہی۔ اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہوئے، خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے قریبی اتحادیوں کے ساتھ سرد مہری دیکھنے کو ملی۔ سعودی عرب نے پاکستان سے قرضوں کی واپسی کا مطالبہ کیا، جو کہ سفارتی تعلقات میں تناو کی علامت تھی۔ عمران خان کی حکومت بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پاکستان کی پوزیشن مضبوط کرنے میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے ملک مزید تنہائی کا شکار ہوا۔
عمران خان نے چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی، لیکن یہاں بھی کوئی واضح کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ سی پیک منصوبے، جو کہ پاکستان کے لیے اقتصادی لحاظ سے نہایت اہم ہیں، ان کی رفتار میں کمی دیکھنے کو ملی، اور چینی سرمایہ کاروں کا اعتماد کمزور ہوا۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی غیر یقینی کا شکار رہے، خاص طور پر افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کے کردار کو واضح کرنے میں ناکامی ہوئی۔ عمران خان کی حکومت کے دوران پاکستان کا عالمی سطح پر امیج مزید خراب ہوا، اور "سفارتی تنہائی" جیسے الزامات ان کی خارجہ پالیسی پر سوالیہ نشان لگاتے رہے۔ یہ تمام عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی خارجہ پالیسی بھی ان کی دیگر حکومتی شعبوں کی طرح ناکامی کا شکار رہی۔
عمران خان کے دورِ حکومت اور بعد از حکومت پاکستان میں پولرائزیشن، عدم استحکام، اور سیاسی و معاشرتی انتشار کے فروغ کے لیے اکثر ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان کی سیاست نے مخالفین کو "مافیا" اور "چور" جیسے القابات دے کر سیاسی ماحول میں شدت پسندی کو فروغ دیا۔ اس کے نتیجے میں، سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمے اور تعاون کی گنجائش ختم ہوگئی اور عوام میں تقسیم گہری ہوگئی۔ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی کی شکل دینا اور اپنی حکومت کی ناکامیوں کا الزام سابقہ حکومتوں پر ڈالنا عوامی بے چینی کو مزید بڑھانے کا سبب بنا۔ اس دوران جلاو گھیراﺅ اور احتجاجی سیاست کو ایک نیا رخ ملا، جہاں ان کے حامی اکثر عوامی اور حکومتی املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث نظر آئے، جس نے معاشرتی امن اور استحکام کو شدید متاثر کیا۔
عمران خان نے اپنی سیاسی حکمت عملی میں عوام کی جذباتی کمزوریوں کو بخوبی سمجھا اور ان کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے مذہب کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، عوام کے مذہبی جذبات کو ابھار کر اپنی سیاست کو مضبوط کیا اور ان جذبات کو اپنے مخالفین کے خلاف ایک موثر ہتھیار بنایا۔ جھوٹے وعدوں اور جذباتی نعروں کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، لیکن ان نعروں کے پیچھے عملی اقدامات کی کمی نمایاں رہی۔ نفرت اور سماجی تقسیم کو فروغ دے کر انہوں نے اپنی سیاسی حمایت میں اضافہ کیا، لیکن اس کا نقصان ملک کی قومی یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کو ہوا۔ ان کی سیاست میں مخالفین کو نشانہ بنانا اور ان کی عزت اچھالنا ایک معمول بن گیا، جس نے معاشرتی اقدار اور سیاسی رواداری کو نقصان پہنچایا۔
یہ وہ وزیرِ اعظم تھا جو جب وزیرِ اعظم نہیں تھا تو بھی سڑکوں پر احتجاج کر رہا تھا اور جب وزیرِ اعظم بن گیا تو بھی حکومت کرنے کے بجائے سڑکوں پر رہا۔ انہوں نے نہ صرف اپنی حکومت کے دوران اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے احتجاجی سیاست کو اپنایا بلکہ اپنے دورِ حکومت کے اختتام کے بعد بھی یہی رویہ برقرار رکھا۔ یہ طرزِ عمل ایک ایسے لیڈر کا عکاس تھا جس نے ملکی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے اپنی سیاست کو اولیت دی۔ عمران خان کی سیاست نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے مزید تقسیم اور عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا، جس کا خمیازہ آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔
عمران خان نے اپنی سیاست کو ایک ایسے بیانیے پر استوار کیا جو جھوٹ اور جذباتی نعروں پر مبنی تھا، لیکن اس نے عوام کے ایک بڑے طبقے کو اپنی طرف مائل کر لیا۔ آج یہ صورت حال ہے کہ تقریباً 80 فیصد عوام اس بیانیے کے سحر میں مبتلا ہیں، جو نہ صرف سیاسی حقائق سے دور ہے بلکہ ان کی اپنی زندگیوں پر منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ عمران خان کے موجودہ حالات، یعنی ان کا جیل میں ہونا، بھی اس بیانیے کو مزید تقویت دے رہا ہے، کیونکہ عوام کے ایک بڑے طبقے کو ان کے ساتھ ہونے والی "ناانصافی" کا تاثر دیا جا رہا ہے۔ عوام کی یہ حمایت اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک عمران خان کو ایک بار پھر حکومت میں لایا جائے، تاکہ ان کی کارکردگی کا عملی نتیجہ عوام خود دیکھ سکیں اور ان کے بارے میں موجود غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو۔
اگر دو لفظوں میں بات کی جائے تو عمران خان کو صرف وزیرِ اعظم عمران خان ہی شکست دے سکتے ہیں

مزیدخبریں