بلوچستان پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بقیہ تینوں صوبوں سے کہیں بڑا ہے۔ آبادی البتہ بہت کم ہے۔ ہندوستاں کے ایما انگیخت اور شہ پر جو دہشت گردی کی لہر اُٹھی تھی اسے کافی حد تک دبا دیا گیا ہے۔ بلوچستان کی تاریخ اور جغرافیہ تجسس و تحقیق کے کئی در وا کرتا ہے۔ بہت عرصہ پہلے میں نے اپنی سروس کا آغاز بلوچستان سے کیا۔ مکران میں تربت، پسنی اور گوادر میں تعینات رہا۔ ضلع قلات کے سب ڈویژن مستونگ (جو اب ضلع بن چکا ہے) میں اسسٹنٹ کمشنر رہا۔ چار سال کے اس عرصے میں غریب عوام کے دلوں کی دھڑکنیں بہت قریب سے سُنیں اور زندگی کے دکھ سکھ بڑے قریب سے سُنے۔ اس قرب اور اپنائیت سے تخلیقی سوتے پھوٹے اور پھیلتے چلے گئے…نتیجتاً ’’پہلی کتاب اجنبی اپنے دیس میں لکھی جس کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ بلوچ رسم و رواج کا باب قارئین نے بہت پسند کیا۔ قند مکرر کے طور پر اسے پیش کیا جا رہا ہے۔
بلوچ رسم و رواج : بلوچی تہذیب اور کلچر نے خاصی حد تک اپنے خدوخال برقرار رکھے ہیں، کیونکہ عہدِ حاضر کی تہذیب ابھی تک ان سنگلاخ چٹانوں کو سر نہیں کر سکی۔ وہی پرانا لباس، دس گزر کی پگڑی، ایک تھان کی شلوار، چار گز کا کُرتا، وہی مخصوص غذا، ستوئوں کی پوٹلی۔ پانی کی چھاگل اور حسب ِ توفیق چاول، وہی دشت نوردی، وہی خارِ مغیلاں، موسم نامہربان، معیشت دم توڑتی ہوئی غربت، ہاتھ جوڑتی ہوئی ہمت، سنگ توڑتی ہوئی غیرت، نقش چھوڑتی ہوئی۔
عورت کا مقام : بلوچستان میں عورت کو پائوں کی جُوتی تو تصور نہیں کیا جاتا لیکن سر کا تاج بھی نہیں سمجھا جاتا۔ کوئی ایک آدھ تاج ہو تو انسان پہن بھی لے جہاں تین چار تاج ہر گھر میں بیک وقت جگمگا رہے ہوں تو امتیاز برتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بہرحال بلوچ معاشرے میں عورت کا ایک خاص مقام ہے۔ اگر دو قبائل میں جنگ شروع ہو جائے تو عورت کی مداخلت پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ا گر کوئی عورت خون بخشوانے کے لیے ’’میٹہ‘‘ کے طور پر چلی جائے تو اس کے احترام میں خون تک معاف کر دیا جاتا ہے۔ بلوچوں میں دستور ہے کہ وہ غیر بلوچوں میں اپنی عورتوں کا رشتہ نہیں کرتے۔ ایک روایت کے مطابق جب بلوچ ایران میں بستے تھے تو والیٔ کرمان نے بلوچوں سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے یہ خیال کیا کہ ان سے رشتے ناتے کئے جائیں تاکہ اس کی سیاسی حیثیت مستحکم ہو، چنانچہ والیٔ کرمان نے بلوچوں کے چوالیس فرقوں میں سے ہر ایک سے ایک ایک رشتہ طلب کیا۔ یہ مرحلہ بلوچوں کے لیے نہایت کٹھن تھا۔ اگر ایک طرف غیرت تھی تو دوسری طرف قہرِ سلطانی، نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن، والا معاملہ تھا، چنانچہ انہوں نے ہر قبیلے سے ایک ایک نو عمر لڑکے کو زنانہ لباس پہنا کر حاکمِ وقت کے سامنے پیش کر دیا اور پیشتر اس کے کہ راز فاش ہوتا، یہ مکرانؔ بھاگ آئے۔
عام طور پر بلوچوں میں پرد ے کا رواج نہیں ہے۔ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اور اُن کا ہاتھ بٹاتی ہیں لیکن بلوچ ضابطۂ اخلاق بہت سخت ہے۔ اگر کوئی عورت اس آزادی کا غلط استعمال کرے تو پھر ’سیاہ کاری‘ کی سزا موت ہے۔ ایک خاوند کے لیے یہ اعلان کرنا کافی تھا کہ اس کی عورت ’سیاہ کار‘ ہے۔ اس کے بعد اس کو قبائلی قانون کے تحت حق پہنچتا تھا کہ وہ ہر دو زن و مرد کو قتل کر د ے۔ اس قبائلی قانون کا بعض بے ضمیر لوگوں نے ناجائز فائدہ اُٹھانا شروع کر دیا اور محض اپنے دشمن کو ٹھکانے لگانے کے لیے یا بیوی سے چھٹکارا پانے کے لیے بے گناہ عورت پر ’سیاہ کاری‘ کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ حکومت نے اس رواج کو ایک قانون کے ذریعے ختم کر دیا۔
مہمان نوازی : بلوچوں میں مہمان کی خاطر مدارات نہ صرف عام ہے، بلکہ عین جزو ایمان ہے۔ میزبان ، مہمان کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کرتا ہے۔ بہرحال، عزیز ازجان مہمان، بلائے جان اُس وقت بنتا ہے جب قیام کی مدت طول پکڑ جائے۔ ہر بلوچ حسبِ استطاعت مہمان کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ سالم دُنبہ ذبح کر کے اس کی سجی بنائی جاتی ہے۔ دستور کے مطابق کوئی بلوچ مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتا تاکہ مہمان اس کی موجودگی میں کوئی حجاب یا تکلف محسوس نہ کرے۔ دستر خوان چننے کے بعد میزبان مہمان کو دعوتِ کام و دہن د ے کر خود چلا جاتا ہے۔ اگر مہمان زیادہ ہوں تو پھر اُن کے خورو نوش کا بار تمام گائوں والے مل کر برداشت کرتے ہیں۔
حقِ ہمسایہ : بلوچ معاشرے میں ہمسائے کے حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور پناہ میں آئے ہوئے شخص کی حفاظت ایک ایسا فرض ہے جو ہر بلوچ مرتے دم تک ادا کرتا ہے۔ بسااوقات اس فرض کی تکمیل میں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، لیکن رسم زندہ رکھی جاتی ہے چونکہ ہر بلوچ بنیادی طور پر غیور ہے، اس لیے پناہ لینے کی نوبت کم آتی ہے۔ بلوچ تاریخ میں دو واقعات ایسے ملتے ہیں جہاں اس رسم کو زندہ رکھنے کے لیے قبائل آپس میں ٹکرا گئے۔ بعد میں یہ تاریخی واقعات رزمیہ شاعری کی بنیاد بنے اور بلوچ شُعرا نے ان میں رومانوی رنگ بھر کے مزید کشش پیدا کر دی۔ مسماۃ گوہر جس کے حسن کے چرچے بلوچستان کی مست آنکھوں والی ہِرنیوں تک پہنچ چکے تھے، میر گوہرام خانؔ لشاری کی ہمسائگی چھوڑ کر میر چاکر خاں رِند کی پناہ میں آ گئی۔ یہ مالدار عورت تھی اور اونٹوں کے بے شمار گلّے اُس کی ذاتی ملکیت تھے۔ کچھ تو اس بُتِ کافر سے بچھڑنے کا غم، کچھ سیم و زر سے محرومی کا دُکھ۔ کچھ اپنے قبیلے کی تذلیل پر برہم۔ میر گوہرامؔ خان نے بدلہ لینے کی ٹھانی اور ایک دن گوہر کی اونٹنیاں ہانک کر لے گیا۔
جب یہ خبر میر چاکرؔ خان تک پہنچی تو وہ غصے سے بیدِ مجنون کی شاخ کی طرح لرزنے لگا اور فوراً قبیلے کے سرداروں کو مشورہ کے لیے طلب کیا۔ میر بیُورغؔ نے جو ایک جہاندیدہ سردار تھا، رائے دی کہ اس واقعے کو رِندوں کے وقار کا مسئلہ نہ بنایا جائے ، بلکہ اسے رہزنی کا ایک عام واقعہ تصور کیا جائے ۔ رِند اس واقعے کو کیسے فراموش کرتے؟ چنانچہ اس گرم بحثی میں کسی نے بیُورغ رِند کو طعنہ دیا: ’’بیُورغ دشمن کے تیروں سے سہم گیا ہے۔ وہ نیزوں کی انی اور خنجر کی دھار سے خائف ہے۔ تلواروں نے اُسے خوفزدہ کر دیا ہے۔ اے بیُورغ! ڈرمت۔ جہاں ہم تلوار کے جوہر دِکھلائیں گے، وہاں تجھے تیروں کی زد سے بھی بچائیں گے۔‘‘
میر بیُورغ کی غیرت کے لیے یہ الفاظ تازیانہ تھے۔ ہر دو قبائل آپس میں ٹکرا گئے اور تیس برس تک جنگ کے شعلے بھڑکتے رہے۔ اسی قسم کا ایک واقعہ سمّی نامی ایک عورت سے منسوب ہے۔ سمّی ایک بیوہ عورت تھی جو پہلے تو بیُورغ کی ’باہوٹ‘ بنی، لیکن بعد میں گور کثیر قبیلے کے سردار دوداؔ خان کی پناہ میں آ گئی۔ دوؔدا قبیلے کا نو عمر سردار تھا اور اُس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ دوداؔ ابھی تک زندگی کی لذتوں سے پوری طرح آشنا بھی نہ ہوا تھا کہ خبر آئی کہ راہزن، سمّی کی گائیں لے گئے ہیں۔ دوداؔ خواب میں مدہوش ہے کہ اُس کی ماں اُس کو جھنجوڑ کر بیدار کرتی ہے اور سرزنش کرتی ہے: ’’جو بہادر کسی کو پناہ دیتے ہیں، وہ دوپہر کو یُوں غفلت کی نیند نہیں سوتے۔‘‘ پھر کہا۔ ’’میں نے تجھے نو ماہ تک پیٹ میں رکھا۔ تین سال تک تجھے دودھ پلایا۔ اس کے عوض تیرے ذمے یہ فرض سونپتی ہوں یا تو سمّی کی گائیں صحیح سلامت واپس لے آ، یا پھر اپنی جان قربان کر دے۔‘‘
یہ الفاظ سُن کر دوداؔ پھڑک اٹھتا ہے۔ تلوار نیام سے نکال کر دشمنوں کی صفوں میں جا گُھستا ہے۔ اور لڑتے لڑتے مارا جاتا ہے۔ (جاری)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38