واشنگٹن (نمائندہ خصوصی + ایجنسیاں) پاکستان اور افغانستان کےلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے پاکستان میں ڈرون حملوں کا سرکاری طور پر اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی امریکی فوجی موجود نہیں، خطے میں امریکی پالیسی کے حوالے سے بھارت سے خصوصی مشاورت کی جاتی ہے، اباما انتظامیہ کو پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف لڑنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے ، القا عدہ اور طالبان کے رہنما افغانستان اور اس کے سرحدی علاقوں میں ہیں ، دہشت گردوں کے خا تمے کےلئے امریکہ دوسرے طریقوں پر غور کر رہا ہے، پاک بھارت نہیں بلکہ پاک افغان امور کا خصوصی سفیر ہوں۔ واشنگٹن میں امریکی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی سی آئی اے اور سپیشل آپریشنز کے اہلکار سرگرم ہیں لیکن کوئی فوجی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود امریکی اہلکاروں کا مقصد ویتنام یا ماضی کے کسی جنگی تجربہ کو دہرانا نہیں بلکہ وہ القاعدہ کے خاتمے کےلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاہم ہالبروک نے پاکستانی حکومت سے تعلق کی نوعیت پر بات کرنے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فوجی کارروائیوں کی حدود کا تعین جنرل کیانی کا کام ہے۔ ہالبروک نے کہا کہ القاعدہ اور طالبان کے رہنما افغانستان اور اس کے سرحدی علاقوں میں ہیں جن کے خلاف امریکہ پاکستان میں بھی فوجی کارروائیاں نہیں کر سکتا۔ ہالبروک نے کہا کہ پاکستان اور بھارت آزاد ممالک ہیں اور مسائل کا حل وہ خود ڈھونڈیں۔ پاکستان بھارت تعلقات ان کے منصب کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ جنوبی وزیر ستان اور سوات میں پاک فوج کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں کارروائی کا فیصلہ پاک فوج خود کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ 1947ءسے شروع ہوتی ہے اور تاریخ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ہالبروک نے اعتراف کیا کہ 1989ءمیں سابق سوویت افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دینا امریکی خارجہ پالیسی کی اہم ترین غلطیوں میں سے ایک تھی۔ نمائندہ خصوصی کے مطابق ہالبروک نے پی بی ایس ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ امریکہ این آر او پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان میں بدلتے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ دریں اثناءامریکی نائب وزیر خارجہ فلپ جے کراﺅلی نے کہا ہے کہ زرداری حکومت کے غیر آئینی یا ناجائز ہونے کا فیصلہ بالآخر پاکستانی عوام کو کرنا ہو گا، آصف زرداری نے ایک جائز پارلیمانی عمل کے ذریعے منصب صدارت سنبھالا تھا، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی پاکستانی عوام کے منتخب کردہ ہیں، کسی قانونی فیصلے سے حکومت کے سٹیٹس میں تبدیلی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ تصور کریں گے، جمہوری اداروں کی تعمیر و مضبوطی کےلئے پاکستانی حکومت کے اقدامات کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ محکمہ خارجہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پشاور پریس کلب پر دہشت گردی کا حملہ انتہائی قابل مذمت اور آزادی صحافت پر براہ راست حملہ ہے۔ دہشت گردی کے الزام پر پاکستان میں گرفتار امریکی شہریوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی قانونی اور پارلیمانی طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں اور پاکستانی حکومت کی دو شاخوں کے درمیان جاری عمل کے بارے میں فیصلہ کرنا ملک کے عوام کا کام ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024