قرضوں کی وصولی کیلئے خواجہ سراﺅں کی خدمات لینے پر غور کیا جائے‘ ہر کوئی قومی دولت لوٹنے میں لگا ہے : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ریڈیو نیوز + ایجنسیاں) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ بحیثیت قوم لمحہ فکریہ اور نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جس کو دیکھو وہ قومی دولت لوٹنے میں لگا ہوا ہے۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت ہر حال میں واپس لانا ہو گی۔ یہ ریمارکس انہوں نے بدھ کو زارکو کمپنی کے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دکھ اس بات کا ہے کہ ہر کوئی قوم کی دولت لوٹنے میں مصروف ہے۔ زارکو کمپنی کی جانب سے ایس ایم ظفر نے موقف اختیار کیا کہ یہ کیس چوری ڈکیتی کا نہیں ایف آئی اے کی غیر قانونی مداخلت کا ہے۔ کسی کی تھوڑی رقم بھی ضبط کر لی جائے تو اس کا جینا مشکل ہو جاتا ہے۔ کروڑوں کا بزنس بند کر کے ملزمان کو جیل میں ڈال دیا گیا اور اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کی ضمانت بھی نہ ہو۔ اس کیس میں جو دفعات لگائی گئی ہیں۔ وہ اس کیس سے متعلق ہی نہیں ہیں۔ زارکو لوگوں کا ایک ایک پیسہ واپس کرے گا بشرطیکہ ان کے کاروبار کو چلنے دیا جائے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے زارکو کمپنی کے مالک لخت حسین کی درخواست ضمانت کی جماعت آج تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ملزم کی گرفتاری کا قانونی جواز ہے یا نہیں۔ انہوں نے کمپنی کی تمام دستاویزات آج پیش کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دیگر اداروں کے کام میں مداخلت کرے۔ دریں اثناءچیف جسٹس نے ہدایت کی ہے کہ قرض کی وصولی کے لئے بھارت کی طرز پر خواجہ سرا¶ں کی خدمات لینے پر غور کیا جائے۔ خواجہ سرا¶ں کے حقوق کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح انہیں روزگار بھی مل جائے گا۔ انہوں نے ڈی سی اوز کو ہدایت کی کہ رجسٹرڈ خواجہ سرا¶ں کے اہل خانہ کا پتہ چلا کر انہیں وراثت میں حق دلوانے کے لئے اقدامات اٹھائیں۔ انہوں نے حکم دیا ہے کہ خواجہ سرا¶ں کے نام ووٹر لسٹوں میں شامل کئے جائیں۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل بنچ نے خواجہ سرا¶ں کے حقوق کے حوالہ سے دائر درخواست کی سماعت کی۔ عدالت نے خواجہ سرا¶ں کو تعلیم کی فراہمی کے لئے اقدامات کرنے کی وفاق اور چاروں صوبوں کو ہدایت کی اور کہا کہ انہیں فنی اور مختلف مہارتوں کی تربیت کے اداروں میں بھی مواقع دئیے جائیں۔ وزارت داخلہ اور نادرا ان کو شناختی کارڈ کے اجرا کے لئے طریقہ کار وضع کریں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وراثت میں حصہ دینے کے حوالے سے خواجہ سرا¶ں کے ورثا فوراً عدالتی فیصلے پر عمل کریں ورنہ قانون حرکت میں آ جائے گا‘ کسی کو کسی کے حقوق غصب نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے سندھ حکومت کی طرف سے خواجہ سرا¶ں کو بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں شریک کرنے کا قابل تحسین قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے خواجہ سرا کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کر دی ہے۔
اسلام آباد (ریڈیو نیوز + ایجنسیاں) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ عدالتیں آئین اور قانون کے مطابق اور میرٹ کے مطابق ہی فیصلے دیتی ہیں‘ فیصلہ آنے پر ایک فریق خوش اور دوسرا ناراض ہو جاتا ہے‘ آئین کے سوا عدلیہ ادھر ادھر ہٹ کر نہیں دیکھتی‘ عدالتی فیصلے کے آ گے سر تسلیم خم کر دینے کا نام ہی قانون کی حکمرانی ہے۔ وہ بدھ کی شام سپریم کورٹ میں راولپنڈی ڈویژن کی 18 بار ایسوسی ایشنوں اور ہائیکورٹ بار راولپنڈی کے عہدےداروں کے مشترکہ وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں قانون کی بالادستی کےلئے کوششیں جاری رکھنی چاہئیں‘ سپریم کورٹ کے فیصلے عوامی ملکیت ہوتے ہیں‘ نئی جوڈیشل پالیسی کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں‘ نئی جوڈیشل پالیسی میں شہادتیں قلمبند کرنے کا کام کمشن کے سپرد کرنے کی تجویز دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج کا کام آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے‘ جس کے خلاف فیصلہ آئے گا وہ باتیں تو کرے گا‘ عدالتوں کے فیصلے قبول کرنے چاہئیں‘ ہمیں ہر صورت آئین و قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ ایک وکیل نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ لاءکالجز کا برا حال ہے اس پر کارروائی کریں‘ ایک کیس میں لاءپڑھانے والا خود فیل ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ جس کے خلاف فےصلہ دےا جاتا ہے وہ خوش نہےں ہوتا اور کمرہ عدالت سے باہر نکلنے کے بعد ےہ کہہ دےتا ہے کہ جج کو کےس کی ہی سمجھ نہےں آئی۔ انہوں نے کہا کہ اےسے روےے کے اظہار سے نہ تو ادارے کا فائدہ ہو رہا ہوتا ہے اور نہ ہی اس فرد کی اپنی شخصےت کے حوالے سے ےہ کوئی مثبت انداز ہوتا ہے۔ انہوں نے وکلا برادری کی جانب سے ملک مےں قانون کی حکمرانی، آئےن کی بالادستی اور آزاد عدلےہ کے قےام کے لئے بھرپور جدوجہد اور پختہ عزم کو خراجِ تحسےن پےش کرتے ہوئے کہا کہ وکلا نے ملک مےں جو جدوجہد کی ہے اس کے نتےجے مےں دراصل اےک بڑی ذمہ داری ان پر عائد ہوئی ہے۔ عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے بنچ اور بار مل کر کوشش کریں اور وکلا غیر ضروری التوا سے گریز کریں۔
اسلام آباد (ریڈیو نیوز + ایجنسیاں) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ عدالتیں آئین اور قانون کے مطابق اور میرٹ کے مطابق ہی فیصلے دیتی ہیں‘ فیصلہ آنے پر ایک فریق خوش اور دوسرا ناراض ہو جاتا ہے‘ آئین کے سوا عدلیہ ادھر ادھر ہٹ کر نہیں دیکھتی‘ عدالتی فیصلے کے آ گے سر تسلیم خم کر دینے کا نام ہی قانون کی حکمرانی ہے۔ وہ بدھ کی شام سپریم کورٹ میں راولپنڈی ڈویژن کی 18 بار ایسوسی ایشنوں اور ہائیکورٹ بار راولپنڈی کے عہدےداروں کے مشترکہ وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں قانون کی بالادستی کےلئے کوششیں جاری رکھنی چاہئیں‘ سپریم کورٹ کے فیصلے عوامی ملکیت ہوتے ہیں‘ نئی جوڈیشل پالیسی کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں‘ نئی جوڈیشل پالیسی میں شہادتیں قلمبند کرنے کا کام کمشن کے سپرد کرنے کی تجویز دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج کا کام آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے‘ جس کے خلاف فیصلہ آئے گا وہ باتیں تو کرے گا‘ عدالتوں کے فیصلے قبول کرنے چاہئیں‘ ہمیں ہر صورت آئین و قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ ایک وکیل نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ لاءکالجز کا برا حال ہے اس پر کارروائی کریں‘ ایک کیس میں لاءپڑھانے والا خود فیل ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ جس کے خلاف فےصلہ دےا جاتا ہے وہ خوش نہےں ہوتا اور کمرہ عدالت سے باہر نکلنے کے بعد ےہ کہہ دےتا ہے کہ جج کو کےس کی ہی سمجھ نہےں آئی۔ انہوں نے کہا کہ اےسے روےے کے اظہار سے نہ تو ادارے کا فائدہ ہو رہا ہوتا ہے اور نہ ہی اس فرد کی اپنی شخصےت کے حوالے سے ےہ کوئی مثبت انداز ہوتا ہے۔ انہوں نے وکلا برادری کی جانب سے ملک مےں قانون کی حکمرانی، آئےن کی بالادستی اور آزاد عدلےہ کے قےام کے لئے بھرپور جدوجہد اور پختہ عزم کو خراجِ تحسےن پےش کرتے ہوئے کہا کہ وکلا نے ملک مےں جو جدوجہد کی ہے اس کے نتےجے مےں دراصل اےک بڑی ذمہ داری ان پر عائد ہوئی ہے۔ عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے بنچ اور بار مل کر کوشش کریں اور وکلا غیر ضروری التوا سے گریز کریں۔