آرٹیکل 370 کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کا گھنائونا منصوبہ نریندر مودی ، امت شاہ اور پاکستان و مسلمانوں سے تعصب رکھنے والے را کے تربیت یافتہ اجیت ڈووال کا تھا۔ اس گینگ آف تھری کا خیال تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی تحریک آزادی زور پکڑ رہی ہے، اسے دبا دیا جائے۔ اس تحریک کو دبانے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں پرو انڈیا عناصر ، بی جے پی کے جموں میں حامی ہندوئوں اور ڈوگرا آبادی کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے۔ وادی اور جموں و کشمیر میں لوگوں پر پیسہ لگا کر انھیں کشمیر پر قبضے کے منصوبے کا ہمنوا بنایا جائے۔ مودی سرکار آزادی کا نعرہ لگانے والے کشمیریوں، جنھیں مودی سرکار علیحدگی پسند کہتی ہے کے مقابلے میں ہندوئوں اور ڈوگروں کی حمایت حاصل کی جائے ۔ لیکن گینگ آف تھری نریندر مودی، امت شاہ اور اجیت ڈووال کے اس منصوبے کو کشمیریوں نے ناکام بنا دیا۔ بدھ کے روز ہمارے دوست اور کشمیری حریت پسند دانشور ڈاکٹر ولید رسول کو ان کے ایک پرانے رفیق نے سرینگر سے تازہ ترین رپورٹ دی جو ڈاکٹر ولید نے راقم کے ساتھ شیئر کی ہے۔ لائن آف کنٹرول کے اس پار سے ایک حریت پسند کشمیری نے ڈاکٹر ولید رسول کو بتایا کہ کشمیریوں کو ریاستی طاقت اور دہشتگردی کے ذریعے دبانے کا مودی، امت شاہ اور ڈووال منصوبہ ناکام ہو گیا ہے۔ سرینگر سے سارے مقبوضہ علاقے میں قابض انتظامیہ نے کرفیو لگا رکھا ہے جس سے کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے، لیکن کشمیریوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھارتی فوج اور مودی انتظامیہ کے تازہ ترین حربے کو ہر صورت میں ناکام بنائیں گے۔ مقبوضہ علاقے سے آنے والی اطلاعات کے مطابق جموں و کشمیر کی قابض انتظامیہ اور فوج پچھلے تین ہفتوں سے کوشش کر رہی ہے کہ جموں اور وادی کے علاقے سے لوگوں کو گینگ آف تھری کے منصوبے میں جلوس نکالنے کیلئے تیار کیا جائے۔ خاص طور پر 15 اگست کو بھارت کے یوم آزادی پر لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کی گئی، انھیں لالچ اور ترغیبات دی گئیں لیکن لوگ سڑکوں پر نہ نکلے۔
حتیٰ کہ جموں کے ہندو اور ڈوگروں نے بھی کوئی جلوس نکالنے سے انکار کر دیا۔ جموں و کشمیر پر قابض انتظامیہ نے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ سے بھی رابطہ کیا اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ گینگ آف تھری کے منصوبے کی حمایت کریں اور انھیں اس کا سیاسی ’’ریوارڈ‘‘ دیا جائے گا لیکن عمر عبداللہ نے بھی سرخ جھنڈی دکھا دی۔ عمر عبداللہ نے تو مودی سرکار کے غیر قانونی اقدام کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ اور بی جے پی کی سابق اتحادی محبوبہ مفتی تو پہلے ہی یہ کہہ چکی ہیں کہ آرٹیکل 370 بھارت اور کشمیر کے لوگوں کے درمیان ایک تعلق فراہم کرتی ہے جسے مودی نے ختم کر دیا ہے اور اب مقبوضہ کشمیر کی صورتحال 1947 والی ہو گئی ہے۔ اب کشمیری اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کریں گے۔
بھارت نواز عناصر موجودہ صورتحال میں اس وقت خوفزدہ ہیں کہ وہ دہلی کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں۔ مودی امیت شاہ اور ڈووال کو اس بات کا سخت صدمہ ہے کہ جموں میں بی جے پی کے حامی بھی ان کے کچھ کام نہ آئے۔ کشمیری ہندو اور ڈوگرے بھی کشمیر کی علیحدہ شناخت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ گینگ آف تھری نے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات نارمل ہیں۔ سرینگر اور دوسرے علاقوں میں تعلیمی ادارے کھولے گئے ہیں لیکن کسی کشمیری نے اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجا۔ سکول بسیں گھروں سے خالی واپس آ رہی ہیں۔ بھارتی فوج کے افسروں نے کشمیریوں سے رابطے کر کے انھیں یقین دلایا ہے کہ وہ بچوں کو سکول بھیجیں تو انھیں مکمل تحفظ دیا جائے گا۔ اس کے باوجود کشمیری والدین نے بچوں کو سکول نہیں بھیجا۔ بھارتی حکومت کے تازہ ترین اقدام نے کارگل کے مسلمانوں کو بھی سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کارگل میں مسلمان ہر روز کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف جلوس نکالتے ہیں ۔ لیہہ کا علاقہ چونکہ بدھ آبادی کا علاقہ ہے اس لئے یہ علاقہ قدرے خاموش ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی قابض انتظامیہ نے ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کر لیا ہے اور وہ انھیں بھارت کے دوسرے شہروں کی جیلوں میں منتقل کر رہی ہے۔ سرینگر بار کے صدر قیام میاں اور دوسرے وکلاء کو گرفتار کر کے کسی دوسرے شہر کی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر تو اب سب کے پاس ہے کہ مقبوضہ کشمیر پولیس کو غیر مسلح کر دیا گیا ہے اور تھانوں میں پولیس کی جگہ سی آر پی ایف کے جوان ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ سے کہا گیا ہے کہ وہ ڈیوٹی پر حاضر ہوں، انھیں دگنی تنخواہ دی جائے گی لیکن اس کے باوجود اساتذہ پڑھانے کیلئے تیار نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بی بی سی کی سابق نامہ نگار نعیمہ مہجور کا بی بی سی اردو سروس میں ایک کالم سامنے آیا ہے جس میں موصوفہ نے کشمیر کی صورتحال کا نقشہ کھینچا ہے۔ نعیمہ مہجور نے لکھا ہے کہ کشمیریوں نے اب لڑنے اور مرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کشمیری خاندان اس بات کا عزم کئے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس گھر میں جو چاقو چھری ہے وہ اسے لے کر اپنی آزادی اور عزت کا تحفظ کریںگے، وہ مر جائیں گے لیکن بھارت کے زبردستی قبضے کو برداشت نہیں کریں گے۔ کشمیری اپنے آپ کو ذہنی طور پر 1947 میں سانس لیتا محسوس کر رہے ہیں۔ وہ بھارت کے ناجائز قبضے کیخلاف اب آخری جنگ کے لئے تیار ہیں۔ کشمیریوں کی یہ جنگ اب کشمیر کی سرحدوں سے نکل کر دنیا بھر کے دارالحکومتوں تک پہنچ چکی ہے امریکہ، یورپ، جاپان اور دوسرے ملکوں میں موجود کشمیری یہ جنگ اب دوسرے ملک کی سڑکوں پر لڑ رہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری لندن، نیویارک،واشنگٹن، برلن، برسلز، میڈرڈ، ڈھاکہ، تہران اور دوسرے شہروں میں بھارتی سفارتخانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ کشمیری اگلے ماہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقف پر مودی کا سیاہ جھنڈیوں اور مخالف نعروں سے استقبال کرنے کی تیار کر ہے ہیں۔ اگلے ماہ کی 9 تاریخ کو جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کا اجلاس ہونے والا ہے۔ اس اجلاس سے پہلے آج جنیوا سائیڈ واچ کی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں بھارتی فوج کے مظالم کی ایک تصویر پیش کی گئی ہے۔ 9 ستمبر کو اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے اجلاس کے موقع پر سارے یورپ اور امریکہ سے کشمیری اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کریں گے۔ گینگ آف تھری نے یہ جنگ سرینگر سے نیویارک، لندن، برسلز و دوسرے دارالحکومتوں میں منتقل کر دی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024