کئی روز گذر گئے ہیں کشمیر کے رہنے والوں کو بھارتی فوج نے گھروں میں محصور کر دیا ہے۔ کشمیر کے مظلوموں کے لیے دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہرین کی وجہ سے مسئلہ کشمیر مہذب دنیا کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ دنیا اس اہم ترین مسئلے پر کیا کردار ادا کرتی ہے اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا شکار ہونے والے مسلمانوں کی نظریں صرف اور صرف مسلم امہ پر ہیں۔ امت مسلمہ کو بہت بڑے امتحان کا سامنا ہے۔ مسلم امہ ایک مرتبہ پھر دوراہے پر ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مظلوم، نہتے، بے بس کلمہ گو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے نام نہاد دعویدار ملک کی جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کے سامنے پتھروں سے مقابلہ کرتے ہوئے دنیا کی توجہ حاصل کرنے اور سوئی ہوئی بے حسی مسلم امہ کو جگانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو پاتے ہیں اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے کوئی معجزہ ہو بھی سکتا ہے لیکن تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے کسی معجزے کے امکانات بہت کم ہیں۔ چونکہ امت تو بکھری ہوئی ہے، ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے، سب کو اپنے مفادات عزیز ہیں، کوئی آگے بڑھ کر اپنے بھائی کی دلجوئی کرنے کو رضامند نہیں ہے، کوئی مشکل وقت میں ظالموں کے سامنے مظلوموں کی حمایت کو تیار نہیں ہے۔ پوری دنیا میں کہیں بھی دیکھ لیں ہر جگہ مسلمانوں کا خون بکھرا پڑا ہے، ہر جگہ مسلمانوں کی گردنیں کٹ رہی ہیں، نسلیں ختم ہو رہی ہیں، جنگوں میں، بم حملوں میں لوگ معذور ہو رہے ہیں، اپاہج ہو رہے ہیں، مال کا نقصان ہو رہا ہے، معیشت تباہ ہو رہی ہے، قومیت ختم کی جا رہی ہے، اتحاد پارہ پارہ ہو کر رہ گیا ہے لیکن پھر بھی کسی کو ہوش نہیں ہے۔ وہ کہ جنہیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنے کا حکم ملا ہے انہوں نے رسی تو تھامی ہوئی ہے لیکن اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف غیر مسلموں کی، وہ کہ جنہیں ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے کہ مسلمان ایسے ہیں کہ جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ کہ جنہیں مظلوم کا ساتھ دینے کی تلقین کی گئی ہے وہ آج اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے نظر آتے ہیں، عراق تاراج کر دیا گیا، ایران کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، اس پر پابندیاں عائد ہیں، شام میں گردنیں کٹ رہی ہیں، معصوموں کی لاشیں سمندروں سے نکل رہی ہیں لیکن مجال ہے کہ امت کی غیرت جاگ جائے، مجال ہے کہ امت کی وحدت بیدار ہو جائے، مجال ہے کہ مسلم امہ قرآن کریم کی آیات پر عمل کرے۔ وہ کہ جنہیں بتایا گیا ہے کہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ان کی آنکھوں کے سامنے معصوم کلمہ گو شہید ہو رہے ہیں، جوانوں کو کلمے پر قائم رہنے کی سزا دی جا رہی ہے، عزتیں پامال ہو رہی ہیں۔ شہیدوں کی تعداد ہے کہ ہر روز بڑھتی ہی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود کسی کے ضمیر نے ملامت کی نہ کسی کا ضمیر جاگا، سب اپنے اپنے فائدے میں مست ہیں۔ افغانستان میں ہزاروں جان سے گئے، ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں نے جان کا نذرانہ دیا، لاکھوں کشمیریوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں لیکن کسی کو احساس نہیں کہ روز محشر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ وہاں یہ بڑے بڑے اسلامی ممالک کے سربراہان کیا جواب دیں گے۔ کس طرح سامنا کریں گے کہ کفار حملہ آور تھے اور ہم زبان بند کیے رکھے، ہاتھ باندھے کھڑے رہے کہ کوئی مالی نقصان نہ ہو جائے۔ اربوں ڈالر نہ ڈوب جائیں امریکہ بہادر ناراض نہ ہو جائے اس وقت کوئی بچانے والا نہیں آئے گا۔ یاد رکھیں آج یہ وقت کشمیریوں پر ہے کل کسی اور پر بھی ایسا کٹھن وقت آ سکتا ہے۔ اگر آج ان مظلوم کشمیریوں کی مدد کے لیے امت مسلمہ نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو کل کلاں یہ آگ سب کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ پھر آپ کی مدد کو بھی کوئی نہیں آئے گا۔ آج مظلوم و محصور کشمیری اپنے مسلمان بھائیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں ان کی امید کلمہ کی بنیاد پر اور قرآن کی تعلیمات پر اور نبیﷺ کی سیرت پر ہے جو ان مظلوموں کی مدد کرنے سے بھاگے وہ اللہ کو جوابدہ ضرور ہو گا۔
پاکستان اپنا سفارتی کردار ادا کر رہا ہے۔ بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش جاری ہے لیکن سفارتی محاذ کے ساتھ ساتھ پاکستان کو جنگ کے محاذ کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے کیونکہ اگر ناخوشگوار حالات پیدا ہوئے تو یہ جنگ پاکستان کو اکیلے ہی لڑنا ہو گی۔ کوئی امت نہیں ہو گی، کوئی عالم اسلام نہیں ہو گا، کوئی امت اور عالم اسلام ہوتا تو فلسطین کے مظلوم آج بھی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں خوار نہ ہو رہے ہوتے، جس امت کو فلسطینی نظر نہیں آئے، قبلہ اول نظر نہیں آیا اسکو کشمیری کیونکر نظر آئیں گے۔ یہ امید ضرور ہے کہ ان حکمرانوں کا انجام اور آخرت بھی بری ہو گی کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے خون کا سودا کیا ہے۔ انہوں نے کاروبار کو امت کے اتحاد پر ترجیح دی ہے، انہوں نے کفار کے ساتھ مل کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون کیا ہے۔ کفار کا ظلم اپنی جگہ عالم اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
قارئین کرام جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو جاتا ہمیں اس وقت تک تو ریاست مدینہ کے بارے بات نہیں کرنی چاہیے یا پھر اپنا طرز عمل تبدیل کر لینا چاہیے۔ اگر ہم قابل نہیں ہیں کہ اپنے کشمیری بھائیوں کے حقوق کے لیے کچھ کر سکیں تو پھر ریاست مدینہ کیسے قائم ہو گی۔ ہندو انتہا پسندوں نے اپنی بالادستی کے لیے کشمیریوں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور ہم بتوں کو پوجنے والوں کو اس کام سے روکنے کے لیے بھی ان سے اپیل کر رہے ہیں جن کے بارے قرآن فیصلہ دے چکا ہے کہ یہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے یوں ان حالات میں ریاست مدینہ کے تصور کی نفی ہوتی ہے۔
کاش کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور امت مسلمہ جاگ جائے، اگر نہیں جاگے گی تو پھر ایک ایک کر کے باری سب کی آئے گی، یہ مذہبی برتری اور جنونیت سب کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، یہ آگ سب کے گھروں تک پہنچے گی۔ اس آگ سے بچنے کا واحد طریقہ اتحاد، اتحاد اور اتحاد ہے۔ جب تک یگانگت، اتحاد، اتفاق اور ایک دوسرے کی حفاظت کا غیر مشروط رویہ نہیں ہو گا وہ مذہب کی آڑ میں دہشت گردی کا نام لے کر کاٹتے رہیں گے۔جتناجلد ہو سکے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں ورنہ سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024