ہجرت مدینہ منورہ کے بعد جب مواخات (ایک دوسرے کا بھائی بنانے )کا سلسلہ قائم ہوا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حضرت اوس بن ثابت المنذر کا بھائی قرار دیا گیا ۔ آپ نے مدینہ منورہ میں بھی زراعت اور تجارت کے ذریعے سے اپنے مالی معاملات کو بہت مستحکم کرلیا ۔مدینہ منورہ میں ان دنوں پانی کی شدید قلت تھی ۔ لوگ ’’بئر رومہ‘‘نامی ایک کنویں سے پانی خرید کر استعمال کرتے تھے۔ حضرت عثمان غنی نے پہلے اس کنویں کا نصف خرید لیا اور پھر بقیہ حصہ بھی خرید کر اللہ کے رستے میں وقفِ عام کردیا۔ اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں یہ عمل نہایت ہی مقبول ہوا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جنت کی بشارت سے خورسند ہوئے۔ 2ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا۔ جن دنوں مسلمان اس سفر کیلئے نکل رہے تھے۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی صحت مبارکہ نہایت ناساز تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو مدینہ منورہ میں ٹھہر کر تیماداری کا حکم دیا۔ حضرت رقیہ اس مر ض میں وصال فرماگئیں۔ جب مدینہ منورہ میں فتح کی خبر پہنچی تو اس وقت آپ کی تدفین ہورہی تھی۔ جب مجاہدین بدر میں مال غنیمت کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمان کا حصہ بھی الگ کیا کیونکہ آپ اللہ اور اسکے رسول کے کام میں مصروف تھے۔ (بخاری، ابو دائود )اس طرح آپ اصحاب بدر میں بھی شمار کیے جاتے ہیں ۔حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے وصال نے حضرت عثمان کر بہت غمزدہ کردیا ۔ ایک تو وفاء شعا ر اور غم گسار اہلیہ کی جدائی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبتِ دامادی کا انقطاع ۔حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپکو اداس وملول دیکھا تو اپنی دوسری صاجزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے فرما دیا ، ارشاد ہوا۔’’اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی عثمان سے کردوں‘‘۔(احمد ، طبرانی)اس قرابتِ عظیمہ کی وجہ سے صحابہ کرام نے آپ کو ’’ذوالنورنین ‘‘(دونوروں والے) کا لقب دیا ۔ جب ۹ ہجری میں حضرت ام کلثوم بھی وصال فرماگئیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عثمان کی شادی کرادو،اگر میرے پاس تیسری (ایسی ) بیٹی ہوتی (جس کا ابھی نکاح نہ ہوا ہوتا )تو اس کا نکاح بھی عثمان کے ساتھ کردیتا (طبرانی )ایک روایت میں ۰۴ کا عدد بھی آیا ہے کہ میں انھیں یکے بعد دیگر ے حضرت عثمان کے نکاح میں دے دیتا ۔ حدیبیہ کے مقام سے آپ کو سفیر بناکر مکہ بھیجا گیا لیکن یہ افواہ اڑ گئی کہ اہلِ مکہ نے آپ کو شہید کردیا ہے۔ اس پر حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے بیعت لی کہ خبر صحیح ہونے کی صورت میں ہم خونِ عثمان کا بدلہ لیں گے۔ اسے ’’بیعت رضوان ‘‘کہتے ہیں۔ حضرت عثمان کی جانب سے حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیعت کی اور اپنے دست مبارک کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا ۔ بیعت کرنے والے تقریباً ۰۰۵۱ افراد کو اللہ نے اپنی رضا ء کی خوشخبری دی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024