ہفتہ‘ 22 ؍ ذی الحج 1440ھ ‘ 24 ؍ اگست 2019 ء
چودھری نثار کا آئندہ چند ہفتوں میں لائحہ عمل کے اعلان کا عندیہ
چودھری نثار کسی جماعت اور حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی سینئر سیاستدان ہیں، عرصہ تک میاں نواز شریف کے ہم راز و دم ساز رہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے بعد دوسری اہم وزارتِ داخلہ کے مستقل الاٹی رہے۔ گزشتہ انتخابات میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے، البتہ پنجاب اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔ رُکنیت کا حلف ابھی تک نہیں اُٹھایا کہ انتخابات کی شفافیت کی توثیق ہو جائے گی۔ مسلم لیگ ن سے راہیں جدا ہوئیں تو اس شاہین کو تہہ دام لانے کی کئی اطراف سے کوششیں ہوئیں، لیکن آپ ہمیشہ صاف بچ نکلے۔ دروغ برگردنِ راوی، وزارتِ اعلیٰ پنجاب کی پیشکش بھی ہوئی۔ اگر ان اطلاعات میں سچائی ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے اس ’’دلکش دانے‘‘ کو بھی چگنے سے انکار کرتے ہوئے جال میں پھنسنے سے انکار کر دیا۔ رپورٹرکا دعویٰ ہے کہ وہ آئند ہ چند ہفتوں میں لائحہ عمل کا اعلان کرنے والے ہیں۔ خدا جانے وہ لائحہ عمل کیسا ہو گا۔ البتہ ایک میدان ایسا ہے جس میں وہ گھوڑا دوڑائیں گے تو کافی شکار ہاتھ لگ سکتا ہے اور وہ ہے پارلیمنٹ کے ن لیگ سے تعلق رکھنے والے ایسے ارکان جو بے یارو مددگار پھر رہے ہیں۔ چودھری صاحب اگر اُن کے سر پر دستِ شفقت رکھ دیں تو ، ان کی خزاں میں بھی بہار آ جائے گی۔ اُنہیں بلاتے تو سبھی ہیں لیکن اُن کے لیے ’’جائے اُستاد‘‘ خالی کرنے کو کوئی تیار نہیں اور حضرت فرنٹ سیٹ سے کم کسی نشست پر بیٹھنے کو آمادہ نہیں۔ عموماً اس پائے کے سیاست دان دوسری جماعتوں میں شمولیت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ خواہ اُنہیں ڈیڑھ اینٹ کی مسجداپنی الگ کیوں نہ بنانی پڑے۔
مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور صدر ایوب کی کھٹ پٹ ہوئی تو بھٹو مرحوم نے ایوب خاں کی جماعت مسلم لیگ (کنونشن) کی سیکرٹری جنرل شپ بھی چھوڑ دی۔ سیاستدان تھے ، سیاست کے علاوہ اُنہیں کچھ آتا جاتا نہیں تھا چنانچہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ٹٹولنا شروع کر دیا کہ کہیں معقول جگہ مل جائے۔ اسی د وران ایک رپورٹر نے مولانا مودودی سے پوچھا کہ بھٹو صاحب کی بات چیت کئی جگہ چل رہی ہے لیکن نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہو رہا ، مولانا نے جواب دیا بھٹو صاحب کی حالت سڑک کنارے کھڑے مسافر کی ہے ہر گزرنے والی بس کو ہاتھ دیتے ہیں، جب بس رُکتی ہے تو اصرار کرتے ہیں کہ فرنٹ سیٹ پر ہی بیٹھوں گا۔
٭٭٭٭٭
سابق وزیر اعلیٰ بہار کی آخری رسومات: گن سلیوٹ کے موقعہ پر ساری رائفلیں ٹُھس
بھارتی ریاست بہار کے تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہنے والے جگن ناتھ مشرا کی آخری رسومات کے دوران پولیس اہلکاروں کو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب ارتھی کو سلامی دینے والے 22 اہلکاروں میں سے کسی کی بھی رائفل نہ چل سکی۔ دراصل بھارتی رائفلیں بے گناہوں یا مسلمان مظاہرین پر چلتی ہیں۔ بہار اور دوسری ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے لیے ایک بڑا سبق ہے کہ کسی نہ کسی دن اُنہیں بھی موت آئے گی لہٰذا آئندہ شرمندگی سے بچنے کے لیے پولیس کے سٹور میں پڑی رائفلوں کو گاہے گاہے تیل دیتے اور اُن کی آزمائش بھی کرتے رہنا چاہئے تاکہ آئند ہ ایسی بدشگونی کا اعادہ نہ ہو۔ خبروں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جب رائفلوں نے چلنے سے انکار کر دیا تو مشرا جی کے آخری سفر کی یہ ایک اہم رسم کیسے ادا ہوئی۔ کم از کم کسی قریبی چھائونی سے ہلکی پھلکی سی توپ ہی منگوا لیتے توپ کا ایک گولہ بھی داغ دیا جاتا تو رسم پوری ہو جاتی۔ بھارتی حکومت کو اب ہر ریاست کے دارالحکومت میں چاق و چوبند رائفلوں کا الگ سٹور بنانا چاہئے اور ان رائفلوں کی کسی چھوٹے بڑے مردے کی ارتھی پر آزمائش کرتے رہنا چاہئے۔ ازل سے یہ بدنامی جگن ناتھ مشرا کی ارتھی کے لیے لکھی گئی تھی جو ہو کر رہی، کتنی بدنصیبی کی بات ہے کہ جس نے اپنی زندگی میں ا قتدار میں ہوتے ہوئے درجنوں مظاہروں کو منتشر کرنے کے لیے گولی چلوائی ہو گی آج اس کی ارتھی پر گنوں نے خالی ٹھاہ کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ ہو سکتا ہے کسی بے گناہ کی بددعا نے یہ روز بد دکھایا ہو!
٭٭٭٭٭
تامل ناڈو: اونچی ذات کے ہندوئوں نے دلتوں کو ارتھی نہ گزارنے دی
تامل ناڈو کے گائوں نارائن پورم میں ایک دلت کا دیہانت ہو گیا، جب اس کی ارتھی شمشان گھاٹ لے جائی جانے لگی تو اونچی ذات کے ہندوئوں نے راستے میں باڑھ کھڑی کر دی کہ یہ راستہ صرف اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے لیے ہے چنانچہ گائوں والوں کے پاس 20 فٹ اونچے پل کے اوپر سے رسیوں کی مدد سے میت نیچے اُتارنے کے سوا کوئی چارا نہ رہا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو میں اس واقعہ پر غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بھارتی شہری سوال کر رہے ہیں کہ کیا مودی سرکار کے بھارت میں نچلی ذات کے ہندوئوں کو عزت سے مرنے کا حق بھی نہیں۔ بھارت میں کئی اچھوت لیڈروں کو انڈین نیشنل کانگرس میں صف اول کی جگہ حاصل رہی ہے۔ آزادی سے پہلے ایک وقت آیا تھا کہ جب اچھوتوں نے اپنے آپ کو ہندوئوں سے علیحدہ کرنے کی تحریک چلائی لیکن گاندھی جی نے خطرہ محسوس کیا کہ اگر اچھوت ہندوئوں سے علیحدہ ہو گئے تو ہندوستان میں ہندو اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے مکرو فریب سے کانگرس میں شامل اچھوت لیڈروں کے ذریعے اُنہیں بے وقوف بنانے کے لیے دلت (آسمانی مخلوق) کہا جانے لگا۔ اچھوتوں یا دُلتوں کے اصل قاتل اُن کے وہ لیڈر ہیں جو گاندھی جی کے دام فریب میں آ گئے۔ دراصل دلت خود بھی اس ذلت سے چھٹکارا حاصل کرنا نہیں چاہتے۔ ورنہ کئی چوائس ہیں ، اپنی علیحدہ شناخت بنا سکتے ہیں مسلمان یا عیسائی ہو سکتے ہیں کہ اس طرح اُن کی مالی حالت نہ بھی بدلی تو کم از کم عزت نفس تو ملے گی۔ اُنہیں بھی انسان سمجھا جانے لگے گا۔
٭٭٭٭٭
دبئی: شوہر کی غیر معمولی محبت سے تنگ، اماراتی خاتون نے طلاق مانگ لی
عدالت سے خلع ملتا ہے یا نہیں لیکن ایک بات واضح ہو گئی کہ خاتون نفسیاتی کیس ہے۔ اسے خاوند شریف بلکہ زن مرید ملا جو زن مریدی کی جملہ صفات سے متصف تھا۔ اس خاتون کو تو ایسا خاوند چاہئے تھا جو روزانہ کی بنیاد پر اُس کی ہڈی پسلی ایک کرتا، جوتے میں رکھ کر روٹی دیتا، ساری رات سونے نہ دیتا، کسی نہ کسی کام پر لگائے رکھتا، نہ بھی کوئی بات ہوتی، تو بھی جھگڑا پیدا کر لیتا دفتر جاتے ہوئے رسیوں سے باندھ جاتا ، خاوند محبت کا بھوکا تھا، جبکہ خاتون ’’مار کٹ کھانے‘‘ کی آرزو مند ، اگر خاتون کو خلع مل جائے تو آئندہ شادی سے پہلے اچھی طرح تسلی کر لے کہ نیا خاوند اُس کی پسند پر پورا اُترے گا اور گھر کو جہنم بنانے کی اہلیت کا حامل ہو گا یا کم از کم اسے جوتی کے نیچے رکھے گا اور طلاق لکھ کر دروازہ پر لٹکا دے گا اور اسے بتا دے گا کہ ہوشیار رہنا یہ کسی وقت بھی تمہارا مقدر بن سکتی ہے۔
٭٭٭٭