قیام پاکستان سے پہلے آل انڈیا مسلم لیگ ایک جمہوری سیاسی اور نظریاتی جماعت تھی۔ اس جماعت کے لیڈر اپنے زمانے کی بہترین شخصیات تھیں جن میں اپنے نصب العین کے حصول کیلئے جذبہ اور عزم کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت قائداعظم کے ہاتھوں میں تھی جو اہل پُرعزم اور دیانت دار تھے جنہوں نے جمہوری نظریاتی سیاست کا بے مثال ماڈل پیش کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ مرکز سے پرائمری یونٹ تک منظم اور فعال تھی۔ اس جماعت میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ اس جماعت کی شاخیں مزدوروں ،کسانوں نوجوانوں خواتین اور بچوں میں بھی موجود تھیں۔ جب سیاسی اور جمہوری سرگرمیوں کیلئے ضرورت پڑتی تو سب سے پہلے جماعت کے لیڈر پارٹی فنڈ جمع کراتے پارٹی فنڈ کا باقاعدہ حساب کتاب رکھا جاتا جس کا آڈٹ کرایا جاتا اور اس آڈٹ کی رپورٹ آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی کونسل میں پیش کی جاتی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو طاقتور اور پُرجوش پریس کی حمایت حاصل تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ چونکہ منظم جماعت تھی ‘ اسکے اندر بھی جمہوریت تھی لہٰذا اس نے کامیابی کے ساتھ اپنے وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔ انگریزوں اور ہندوؤں دونوں کو سیاسی شکست دیکر کر اپنا قومی نصب العین پاکستان حاصل کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا کامیاب اور جمہوری سیاسی اور نظریاتی ماڈل ہمارے سامنے موجود تھا۔ نظریہ پاکستان آل انڈیا مسلم لیگ کا نظریہ تھا جس کے ساتھ نہ صرف جماعت کے لیڈروں نے ثابت قدمی کے ساتھ پوری وفاداری نبھائی بلکہ عوام نے بھی اپنے لیڈروں پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے تحریک پاکستان میں پر جوش کردار ادا کیا۔ قائد اعظم حقیقی ڈیموکریٹ تھے اور پالیسی فیصلے مشاورت سے کرتے تھے۔ انہوں نے آزادی ہند کا قانون بھی مشروط طور پر قبول کیا اور اعلان کے بعد مرکزی کونسل کا اجلاس بلا کر حتمی منظوری حاصل کی۔ پاکستان کے سیاسی تجزیہ نگار اور مورخ متفق ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایک سیاسی جماعت بھی پولیٹیکل سائنس کے جمہوری اصولوں کی روشنی میں سیاسی جمہوری اور نظریاتی نہ بن سکی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی کی بنیاد جمہوری اصولوں کے مطابق رکھی اس جماعت کو پرائمری یونٹ تک منظم کیا اور استحصال سے پاک معاشرے کا قیام اس جماعت کا قومی نصب العین قرار دیا۔ چنانچہ کہہ سکتے ہیں کہ اہل لیڈروں سرگرم جیالوں اور انقلابی منشور کے حوالے سے پی پی پی ابتدا میں ایک سیاسی جمہوری اور نظریاتی جماعت تھی جسے ذوالفقار علی بھٹو کی اہل ولولہ انگیز اور دیانتدار قیادت حاصل تھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد پی پی پی اپنی جمہوری اور نظریاتی شناخت برقرار نہ رکھ سکی۔ عوام دشمن جاگیردار اور سرمایہ دار پی پی پی میں شامل ہوگئے جنہوں نے منصوبہ بندی کرکے پی پی پی کو انقلابی اور نظریاتی راستے سے ہٹا دیا جس کی وجہ سے پاکستان بھر کے ہزاروں نظریاتی سرگرم کارکن مایوسی کا شکار ہوگئے۔ مسلم لیگ نون خاندانی جماعت ہے جس کا کوئی مخصوص نظریہ نہیں ہے۔ اس جماعت کو بھٹو دشمنی کے نام پر تشکیل دیا گیا، اس جماعت کی پالیسی اور حکمت عملی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی۔ یہ جماعت کسی حوالے سے بھی حقیقی معنوں میں سیاسی جمہوری اور نظریاتی جماعت نہیں ہے۔ پی پی پی کی طرح اب مسلم لیگ نون بھی خاندانی اور شخصی جماعت بن چکی ہے۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں کو ہزاروں سرگرم کارکنوں کی حمایت حاصل ہے جو جمہوری اصولوں سے ناآشنا ہیں مسلم لیگ نون کے اندر جمہوریت کا فقدان نظر آتا ہے۔ پارٹی کے فیصلے لیڈر کی ذاتی پسند اور ناپسند کے حوالے سے کئے جاتے ہیں۔پاکستان کے معروف کرکٹر عمران خان نے تحریک انصاف کے نام پر ایک سیاسی جماعت تشکیل دی جسے وہ حقیقی معنوں میں جمہوری اور نظریاتی جماعت بنانے میں ناکام رہے۔ انہوں نے پارٹی کے اندر ایک دو مرتبہ انتخابات کرانے کی بھی کوشش کی مگر عملی سیاسی پس منظر نہ ہونے کی بنا پر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ تحریک انصاف کا مرکز اور محور بھی عمران خان کی شخصیت ہے تحریک انصاف کے پرائمری یونٹ منظم اور فعال نظر نہیں آتے۔ یہ جماعت اپنے نام کے حوالے سے پارٹی کے بجائے ایک تحریک ہی رہی ہے۔ تحریک انصاف واضح قومی نصب العین کا تعین نہ کر سکی اس نے کرپشن کے خاتمے اور احتساب کو اپنی منزل قرار دیا تحریک انصاف کے لیڈر یہ بات فراموش کربیٹھے کہ جب تک کرپشن کو پیدا کرنے والا سیاسی اور معاشی نظام تبدیل نہ کر دیا جائے۔ کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکتا۔ آج پاکستان میں تحریک انصاف کے ووٹوں کے ذریعے بنائی گئی حکومت تو موجود ہے مگر تحریک انصاف بطورجماعت کہیں نظر نہیں آتی۔
جماعت اسلامی پولیٹکل سائنس کے اصولوں کے مطابق ایک جمہوری اور نظریاتی جماعت ہے مگر وہ بوجوہ عوامی پذیرائی حاصل نہیں کر سکی۔ پاکستان کے سیاسی میدان میں ایک سیاسی جمہوری اور نظریاتی جماعت کا خلاء موجود ہے جسے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سیاسی طور پر تجربہ کار لیڈروں اور کارکنوں کی کمی نہیں ہے جو نئی جماعت میں فعال اور سرگرم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بشرطیکہ نئی جماعت کو جمہوری اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے‘ منظم کیا جائے اور پاکستان بھر کے نظریاتی سیاسی کارکن ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر نئی جماعت کی بنیاد رکھیں۔
نئی سیاسی جماعت تشکیل دینے کے خواہشمند نوجوان پورے پاکستان سے پڑھے لکھے باشعور اور اور باکردار افراد کا کنوینشن بلائیں اور اس میں باہمی مشاورت اور تبادلہ خیال سے ایک انقلابی اور نظریاتی ایجنڈا تشکیل دیں جو پاکستان کے معروضی حالات کے عین مطابق ہو۔ پاکستان کے رائج انتخابی نظام کے تحت کسی نئی جماعت کا کامیاب ہونا ممکن نھیں ہو گا جس کا تجربہ کئی بار ہو چکا ہے لہٰذا نئی جماعت کے بانی لیڈروں کے لئے یہ لازم ہوگا کہ وہ واضح اور دو ٹوک و الفاظ میں عوام کو یہ باور کرائیں کہ نئی جماعت سب سے پہلے عوامی طاقت کو منظم کرکے عوامی انقلاب برپا کرے گی۔ جس کے نتیجے میں سیاست کے گند کو صاف کرنے کیلئے پاکستان کے سیاسی اور معاشی نظام سے عوام دشمن عناصر کو سیاست سے بے دخل کر دیا جائیگا۔ نیا سیاسی جمہوری انتخابی نظام وضع کیا جائیگا۔ جس میں پاکستان کے پڑھے لکھے باکردار افراد کیلئے سیاسی جمہوری اور انتخابی مواقع پیدا کئے جائیں گے۔ خاندانی شخصی اور موروثی سیاست کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ انتخابی نظام وضع کرنے کے بعد پاکستان میں انتخابات کرائے جائیں گے اور نئی جماعت کا قومی نصب العین قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق پاکستان کو ایک جمہوری اور فلاحی ریاست قائم کرنا ہوگا۔ پاکستان کے مزدور کسان اور محنت کش عوام بے آواز اور لاوارث ہو چکے ہیں۔ لیڈروں کے غیر معمولی دبائو کی وجہ سے جمہوری اصول اپنی موت آپ مر چکے ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ان حا لات میں اگر نئی جماعت غریب عوام کی ترجمان بنے اور عوام کو یقین دلائے کہ ہر بے روز گار کو نوکری دی جائے گی اور جب تک نوکری نہیں ملے گی ہر بیروزگار کو بیروزگاری الائونس دیا جائے گا اور ہر بے گھر خاندان کو آسان قسطوں پر مکان دیا جائیگا۔ نئی جماعت میں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کو شامل نہ کیا جائے تاکہ نئی جماعت کو عوام کا لازوال اعتماد حاصل ہو سکے اور اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہو جائیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024