بڑا زبان زدوعام محاورہ ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے، دورحاضر میں اس محاورے کو ایک ہزارفیصد سچ ثابت کرنے کا سہرا بھارت کے شدت پسند وزیراعظم نریندر مودی کے سر ہے جس نے نام نہاد آئینی ترامیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرلیا۔ مقبوضہ کشمیر تقسیم برصغیر پاک و ہند کے بعد سے اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے ۔اقوام متحدہ میں کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت دینے کی قراردادیں بھی پاس ہوئیں اور معاہدے بھی ہوئے لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہوپایا اور کشمیریوں کو اُن کے حق سے محروم رکھا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی زمین مسلسل بے گناہ کشمیریوں کے خون سے رنگی جارہی ہے، کشمیری مائوں بہنوں کی چادریں سڑکوں پر روندی جارہی ہیں، معصوم بچوں کو بندوقوں کے بٹ مارے، پیلٹ گن کے ذریعے نابینا کیا جارہا ہے، کشمیری تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ کشمیر وسائل سے مالامال لیکن ان سے فائدہ بھارت اٹھارہا ہے۔ بھارت کشمیر کے دریائوں سے بجلی پیدا کرکے بھارتی ریاستوں کو دے رہا ہے جبکہ کشمیر اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔ جموں و کشمیر کے مسلمان کسی بھی قیمت پر بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے انہو ں نے قربا نیوں کے ساتھ جس عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا ہے اسے نظر انداز کرکے محض مفادپرست عناصر کے بل بوتے پر بھارتی تسلط کو کسی بھی شکل میں لانے کی کوشش یا تائید کشمیری عوام سے غداری اور غضب الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ انسانیت کا ڈنکا بجانے والے ممالک کی کشمیر کے مسئلے پر خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے اور ان کی تمام تر انسانیت غیرمسلموں تک محدود ہے لیکن چند ایک کے علاوہ باقی تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کی زبانیں کشمیریوں کے قتل پر گنگ ہونا بہت افسوسناک اور تکلیف دہ ہے، جلے پر نمک چھڑکنے کے مصداق کشمیر کو بھارت کا حصہ بنالینے کے بدترقدم کے بعد ایک مسلمان ملک نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری تو دوسرے نے بھارتی وزیراعظم کو اعلی ترین سول اعزاز دینے کا اعلان کردیا، اس سے کشمیری بھائیوں، بہنوں کے دلوں پر کیا گزری ہوگی، اس کا کسی کو اندازہ تک نہیں ہوسکتا۔
مسلمان ممالک سمیت باقی دنیا کشمیر یوں کی نسل کشی پر جتنی چاہے بے حسی اور حیوانیت کا مظاہرہ کرے لیکن کچھ چالیں وقت بھی چلتاہے جو ابھی سے بھارت کے خلاف جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ بھارتی ریاست نے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے اپنا علیحدہ پرچم اور قومی ترانہ جاری کردیا ہے، سکھوں کے دلو ںمیں بھی گولڈن ٹیمپل کے زخم ہرے ہیں چنانچہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر آزاد خالصتان کا نعرہ بلند کردیا ہے، اس کے علاوہ بھارتی ریاستوں میں بیس سے زیادہ علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ جلد یا بدیر نیٹو فورسز افغانستان سے نکلنے والی ہیں ، افغان مجاہدین کے خون کی گرمائش کا اندازہ اس سوویت یونین کے افغانستان پر حملہ کے دور میں ہونے والے ایک واقعہ سے لگالیں۔ افغانستان میں شمالی اتحاد کے رہنما احمد شاہ مسعود ایک بین الاقوامی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے، نمائندے نے ان سے پوچھا کہ سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کے بعد آپ کیا کریں گے ، احمد شاہ مسعود نے جواب دیا کہ اس کے بعد ہم آپس میں لڑیں گے۔یہ بہت گہری بات اور اس بات کا ثبوت تھی کہ آرام سے بیٹھنا افغان مجاہدین کی سرشت میں نہیں۔ لامحالہ جب نیٹو فورسز افغانستان سے نکل جائیں گی تو عین ممکن ہے کہ افغان طالبان مقبوضہ کشمیر کا رخ کرلیں جہاں بھارت مسلمانوں کے ساتھ بدتر ین سلوک کررہا ہے اور اگر ایسا ہوا تو بھارت کو یہ اندازہ اچھی طرح ہونا چاہیے کہ اگر نیٹوفورسز مذاکرات کی ٹیبل پر آکر انخلاکے لیے موزوں راستہ تلاش کرنے پر مجبور ہوئی ہیں تو ان کے مقابلے بھارت کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ بھارت کشمیر پر غاصبانہ قبضہ مضبوط کرنے کے بجائے اپنے گھر کی فکر کرے، یہ نہ ہو کہ کشمیر کے چکر میں بھارت کے اپنے درجنوں ٹکڑے ہوجائیں۔ کشمیر بھارت کا نہیں بلکہ پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے،کشمیر اور پاکستان دو الگ الگ چیز نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کا حصہ ہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے لہذا کسی بھی کمزوری و بے اعتدالی و پسپائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کشمیر کے اصولی موقف پر سختی سے ڈٹے رہنے اور متحرک رہتے ہوئے عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو عالمی برادری کے ذریعے بھارت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ کشمیر میں ظلم و ستم بند کرتے ہوئے کشمیریوں کو آزادی سے جینے کا حق دلائے ۔عالمی برادری کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی بربریت کی وجہ سے پورے خطے میں کشیدگی پھیل رہی ہے۔ اگر عالمی برادری نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا جاری رکھا تو خوراک، ادویات کی قلت اور بھارتی فوج کے مظالم کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ بھارتی وزیر دفاع نے ایٹمی حملے میں پہل کرنے کی دھمکی بھی دی ہے ، وہ بھی یہ سوچے بغیر کہ پاکستان کا جواب اس سے کہیں زیادہ سخت ہوگا۔ اگر بھارت کی نادانی کی وجہ سے ایٹمی جنگ چھڑی تو اس سے ہونے والی تباہی و بربادی کے اثرات ساری دنیا محسوس کرے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024