شہ رگِ پاکستان وادیٔ کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات دلانے کے لیے دو قومی نظریہ کے علمبردار اور بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظمؒ کے شیدائی معمار نوائے وقت گروپ آف نیوز پیپرز خلد آشیانی ڈاکٹر مجید نظامی ارض وطن کے پہلے ایسے پاکستانی تھے جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کی پیشکش کی تھی، ایک بار نہیں اس پیش کش کو انہوں نے بڑے بڑے بھرے مجمعوں میں اس پیشکش کو بار بار دہرایا اور کھلے لفظوں میں کہا کہ بھارت پاکستان کی طرف آنے والے دریائوں پر پاکستان دشمنی میں جو ڈیم بنا رہا ہے۔ ان کو میزائل مار کر تباہ برباد کر دیا جائے اور بھارتی غاصبانہ قبضے میں کشمیر کے ڈیموں پر جو میزائل داغا جائے ۔ اسکے ساتھ مجھے (نظامی صاحب) باندھ دیا جائے۔ ڈاکٹر مجید نظامی (مرحوم) کی طرف سے اس کا مقصد بھارت سے پاکستان کی شہ رگ کو چھٹکارا دلانا تھا۔ تاریخ ا س امر کی شاہد ہے کہ تحریک پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کا گزشتہ قریباً پون صدی سے ایک دوسرے سے چولی دامن کا سا ساتھ چلا آ رہا ہے۔ اسی طرح ان دونوں تحاریک کی بھرپور انداز میں ہر طرح کی تائید و حمایت بانیٔ نوائے وقت حمید نظامی (مرحوم) اور معمار نوائے وقت ڈاکٹر مجید نظامی (مرحوم) کی طرف سے حاصل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ان دونوں مرحومین نے تادم آخر ان تحاریک میں تن من دھن سے حصہ لینے کو جزو ایمان سمجھے رکھا اور ان کے خلد آشیانی ہونے بعد بھی تحریک پاکستان میں صحافتی محاذ پر ہراول دستے کے سرخیل کردار کرنے والا ادارہ نوائے وقت دختر مجید نظامی محترمہ رمیزہ مجید نظامی کی قیادت میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی کے خلاف بھارتی حکومت کی وحشیانہ کارروائیوں اور بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی ہرزہ سرائی کا صحافتی محاذ پر شمشیر برہنہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات خواہ کیسے بھی ہوں۔ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ دنیا کے جن ممالک میں بھی جمہوری نظام نشوونما پا رہا ہے، وہاں کی سیاسی فضا کا ہر لحاظ سے پرسکون اور حوصلہ افزا ہونے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا کرتا نہ ہی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اور انسانیت دشمن بھارت کا حوالہ دینا بے جا نہ ہو گا۔ سیکولرزم کے نام پر بھارت نے ایسی نام کی جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جس کے پس پردہ مقاصد میں ہندوئوں کے واحد فلاسفر جھوٹ کے پرچارک چانکیہ کی دھوکہ بازی اور ہمسایہ ممالک سے دغا بازی سے عبارت تعلیم پر عمل کر کے دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کی نسل کشی کرنا ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ اسے نظریات کی حامل بھارت کی اپاہج جمہوریت میں متحارب سیاسی دھڑوں کے مخالفین قائدین بھی اپنے کٹر ہندو ہونے ایک دوسرے سے سبقت لیجانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ وہ ہر برسر اقتدار ہندو حکمران کے انسانیت سوز فیصلوں اور اس کی طرف سے جاری ہونے والی انسانیت کش پالیسیوں کے سامنے نہ صرف چپ سادھتے ہیں بلکہ ان کی حمایت میں رطب اللسان ہوتے ہیں۔ مگر ہمسایہ دشمن اور پاکستان اور اس کی شہ رگ کی دفاع میں پون صدی سے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ڈیڑھ کروڑ مظلوم کشمیریوں کی حمایت ہرچہ بادا بادکہتے ہوئے عالمی ادارہ یو این اے کی زنجیر عدل ہلانے والی حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے ان پر تنقید کے تیر چلائے جاتے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سلسلہ ارض وطن کی جن سیاسی جماعتوں کی طرف روا رکھا گیا ان کے سرکردہ بلکہ بیشتر چہچہانے والے عمائدین احتساب کی زد میں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے اکثر کے خلاف بوجوہ تفتیش و تحقیقات کا سلسلہ زلف یار کی طرح دراز ہو کر معاشرہ کے لیے وسوسوں کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔ حقائق کچھ ایسے ہوں تو ایسے میں ملک کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے ملکی میڈیا کی کارکردگی کو بحیثیت محموعی حوصلہ افزا، تسلی بخش اور قومی بلکہ حکومتی امنگوں کے مطابق قراردینے کے ساتھ ساتھ یہ کہنا بھی بہت حد تک مناسب ہے کہ بھارت کی ہندو فاشسٹ حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت (سٹیٹس) کو ختم کر کے لداخ کو کشمیر سے الگ کرنے کا جو اقدام کیا ہے ۔ اس پر بھارت افواج کے زیر تسلط کشمیر کے عوام میں جس شدید ردِعمل کا اظہار ہوا ہے۔ اس پر ان ان پر بہیمانہ مظالم کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں۔‘‘ شاہ محمود قریشی ہی کو یہ شکایت نہیں کہ بھارت کے اس سنگدلانہ ، غیر آئینی، غیر اخلاقی اور ادارہ اقوام متحد ہ کی منظور شد ہ قراردادوں کے برعکس بلکہ اپنے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو کے اقوام عالم کے ساتھ کئے گئے وعدہ کے برعکس اقدام کی بھارتی میڈیا نے جس طرح اپنے حکمرانوں کی ہمنوائی کی اور کر رہے ہیں۔ پاکستان میں صحافتی محاذ پر بھی حکومتی کوششوں تائید و حمایت میں اسی طرح کے مظاہرے دیکھنے میں آنے چاہئیں؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024