مسئلہ ہی ایسا ہے کہ مجھے کئی اور موضوعات پر کالم لکھنے سے ہاتھ روک کر اس جلتے بھنتے موضوع پر لکھنا پڑا، اگرچہ سینکڑوں لوگوں نے اس ظلم و بربریت کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا بھی جہاد ہے۔ سو میں نے بھی کالم کی صورت میں کچھ عرصہ قبل اور اب بھی لکھ کر اپنے حصے کی شمع جلانے کی ادنیٰ سی کاوش تو کی ہے لیکن حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ 70سال گزرگئے مظلوم کشمیریوں کو آہ وبکا کرتے ہوئے۔ خون کی ندیاں بہاتے ہوئے اور بلا شبہ پاکستانیوں کو بھی اْن کے حق میں اپنا کردارادا کرتے ہوئے لیکن نتیجہ اتنا بے اثر اور خوفناک ہوگا یہ کسی نے نہیں سوچا تھا۔ بھارت نے اپنے روایتی ظالمانہ کردار کو ادا کرتے ہوئے ہرشق اور ہرقانون کی دھجیاں اْڑا دیں اور کشمیر کو جابرانہ طریقہ سے بھارت میں شامل کرنے کی مذموم حرکت کرڈالی۔ اگرچہ50 سالوں کے بعد سلامتی کونسل میں اس مسئلہ کو اْٹھایا تو گیا ہے لیکن کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا اب دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل370 جو کشمیریوں کو خصوصی درجہ دیتا تھابے معنی تھا۔ یک جنبش قلم سے جسے ردی کی ٹوکری کی نظر کردیا گیا۔ 1846ء تک ہندوستان میں ریاست جموں وکشمیر پر ڈوگرہ راج قائم رہا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسی سال یہ ریاست امرتسر معاہدے کے مطابق ڈوگرہ حکمران کو فروخت کردی۔1846ء سے1857ء تک گلاب سنگھ، 1857ء سے1885ء تک رنبیر سنگھ، 1885ئ سے1925ء تک پرتاب سنگھ اور1925ئسے1949ء تک یہاں ڈوگرہ راج نے حکومت کی۔1947ء میں ہندومہاراجہ نے کشمیر کی خودمختار ریاست کا انڈیا سے الحاق کردیا۔ ریاست میں رہنے والے مسلمانوں کو مہاراجہ کا یہ فیصلہ پسند نہ آیا۔چنانچہ مسلمان کشمیریوں نے مجاہدین کی اکثریت اور پاک فوج کی مدد سے کچھ مخصوص حصے ہندومہاراجہ کے قبضے سے آزاد کروا لئے۔جن میں گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے شامل ہیں۔ اسی دوران انڈیا کشمیر کا یہ مسئلہ لے کر اقوام متحدہ چلا گیا، جہاں کشمیر میں آزاد اور منصفانہ رائے شماری کا فیصلہ کیا گیا اور یہ طے پایا کہ وہ علاقے جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے انہیں یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا انڈیا کے ساتھ الحاق کرلیں اور اگر چاہیں تو بطور خودمختارریاست کے اپنا وجودبرقرار رکھ سکتے ہیں، شملہ معاہدہ کے باوجود کشمیر کا فیصلہ کسی صورت نہ ہوسکا۔لوگ اپنا خون بہاتے رہے، نسل کشی کا عمل جاری رکھا گیالیکن آزادی کا سورج اْس خطہ زمین پر طلوع نہ ہوسکا۔اس وقت مشترکہ کشمیر کا 46فیصد حصہ انڈیا کے پاس38فیصد پاکستان کے پاس اور16فیصد حصہ چین کے پاس ہے۔ گلگت بلتستان کا علاقہ برطانوی حکومت کے زمانے سے ہندو مہاراجہ کی طرف سے ایک ایجنسی کو لیز پر دیا گیا۔بلتستان اور لداخ کے مغربی ضلع کے متنازعہ علاقے کو مقامی لوگوں نے اسکائوٹس کی مدد سے فتح کیا اور پاکستان سے الحاق کرلیا۔بہرحال کشمیر کا رقبہ اور جغرافیائی خدوخال ایک الگ مضمون کی متقاضی ہیں۔ اصل دکھ بھری کہا نی تو یہ ہے کہ چند ہی دنوں میں بھارت نے9لاکھ فوج90لاکھ کشمیریوں پر مسلط کردی ہے یوں ہر دس کشمیریوں پر ایک فوجی تعینات ہے۔ اس وقت حالات سخت کشیدہ ہیں نہ کھانے کو کچھ دستیاب ہے اور نہ ہی ادویات کی سہولت میسر ہے۔ ہرطرف کرفیو کا راج ہے۔ لوگ محبوس ہوکر رہ گئے حتیٰ کہ دوسرے علاقے میں شہید ہونے والوں کے رشتہ دار بھی اْن تک پہنچ کر انہیں پرسہ دینے سے قاصر ہیں۔ ذرائع مواصلات کومنقطع کرکے دنیا بھر سے ان کے روابط کو ختم کردیا گیا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم اور وزیرخارجہ کو پلواما جیسی ایک اور سازش کی بو آرہی ہے۔ اس لئے انڈیا سے سفارتی تعلقات محدود کرتے ہوئے انڈین سفیر کو پاکستانی حدود سے نکل جانے کا حکم صادر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بھارت سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ اب سیکورٹی کونسل میں اپنا مسئلہ اْٹھانے کے بعد پاکستان کو چاہئے کہ وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے توسط سے اسمبلی کا اجلاس بلانے کی درخواست کرے۔ بھارت اگر کلبھوشن کی رہائی کیلئے عالمی عدالت میں رجوع کرسکتا ہے تو پاکستان کشمیر کے لاکھوںستم زدگان کی طرف سے عالمی عدالت میں بھارت کے خلاف مقدمہ دائر کیوں نہیں کرسکتا۔ سیکورٹی کونسل کی قراردادوں اور معاہدوں نے مل کر کشمیر کو ایک بین الاقوامی تنازعہ تسلیم کیا ہے۔اس کا واضح مطلب ہے کہ بھارتی حکومت کی یک طرفہ کارروائی ریاست کو بھارت میں ضم کرنے کا فیصلہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان اور بھارت نے ایک اور بین الاقوامی معاہدہ پر دستخط کرکے اس کی پابندی کا عہد کیا ہوا ہے جسےInternational Conament of Civil and Politicial Rightsکا نام دیا گیا ہے۔ بھارت نے اس معاہدہ پر10اپریل1979ء اور پاکستان نے 29سال بعد اپریل2008ء میں دستخط کئے۔ اب پاکستان کا فرض ہے کہ یا حکومت پاکستان کو اس کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اس معاہدہ کی نگرانی کرنے والے کمیشن میں بھارت کی سنگین خلاف ورزیوں کی رپورٹ درج کروائے اور جنیوا میں انسانی حقوق کمیشن میں بھی اپنا مقدمہ پیش کرے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38