ایک رفیع بٹ تھے۔تحریک استقلال کے راہنما۔ راولپنڈی سے تعلق تھاان کا،متمول آدمی تھے۔ایک دن نہ جانے ان کے جی میں کیا سودا سمایا کہ ایئر مارشل (ر) اصغرخاں کولے کر مری روڈ کی ایک بیکری کے مالک کے پاس لے گئے۔مالک کانام تو بھول چکا ہوں،اب بیکری کا نام بھی یاد نہیں ،تاہم اتنا معلوم ہے کہ اس کا شمار پنڈی کی اعلی بیکریوں میں ہوتا تھا،شائد سب سے بڑی یا اچھی ۔اس کا مالک مستقبل کا علم ہونے کا دعویدار تھا۔یہ بھی مشہور تھا کہ وہ ہر کسی کا ہاتھ نہیں دیکھتا۔کچھ خاص لوگ ہوتے ہیں جنہیںیہ سعادت نصیب ہوتی ہے کہ یہ صاحب ان کا ہاتھ دیکھ کر انہیں مستقبل کی راہیں وکھا سکیں۔اصغرخاں ابھی تک یہی سمجھ رہے تھے کہ شائد رفیع بٹ بیکری کے مالک کو تحریک استقلال میں شمولیت پر آمادہ کرنے کیلئے یہاں لائے ہیں،مگر معاملہ تو کچھ اور ہی نکلاجب رسمی سلام دعا کے بعد انہیں بتایا گیا کہ یہ بیکری کے مالک بہت سیانے اور معروف دست شناس ہیں ۔انکی خوبی ہے کہ یہ ہر کسی کا ہاتھ نہیں دیکھتے اورنہ ہی یہ ان کا پیشہ ہے ،کیونکہ ویسے بھی خود بڑے متمول ہیں ۔اصغر خاں سے رفیع بٹ نے درخواست کی کہ انہوں نے چونکہ بڑی مشکل سے اسے آپ کاہاتھ دیکھنے پر آمادہ کیا ہے لہذامہربانی کرکے انہیں موقع دیں ۔رفیع بٹ ایک کاروباری آدمی تھے۔شائد ذہن میں ہوکہ اگر اقتدار اصغرخاں کے پاس آتا ہے تو ٹھیک ورنہ وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اصغر خاں نے ہاتھ دیکھانے کی فرمائش کو سخت ناپسند کیا اور واپس آگئے۔رفیع بٹ سے کہا کہ ہاتھوں کی لکیروں سے نہیں دونوں ہاتھوں سے کام کام اور کام کرنے سے قوموں کی تقدیر یں بدلتی ہیں ۔ایسا ہی ایک واقعہ مولانا مودودی کے حوالے سے بھی کسی دست شناس کا بتایا جاتا ہے جسے مولانا نے ہاتھ دیکھنے سے منع کردیا تھا۔کہ جوچیز اللہ نے خود اپنی حکمت سے غائب میں رکھی ہے اس کا وقت سے پہلے ظاہر ہونا منشائے ایزدی کے خلاف ہے۔الفاظ شائد کچھ اور ہوں مگر لب لباب یہی تھا۔اور ایک بار تو ایسا ہوا کہ میں خودحیرت کی ا نتہا ئوں میں ڈوب گیا۔ہوایوں کہ میں اور میرا بھائی جان ایف کینڈی ایئر پورٹ نیویارک سے آرہے تھے بڑی تیز بارش، ،بجلی بھی کڑک رہی تھی، رات بڑی گذرچکی تھی ،برف پگھل پگھل کر سٹرکوں گلیوں اور بازاروں میں پھیل رہی تھی۔گاڑیاں بڑی مشکل سے چل رہی تھیں، پیدل چلنا تو دور کی بات رہی۔ایک شخص نے سٹرک پر کھڑے ہوکر ہمیں لفٹ کیلئے رکنے کا اشارہ کیا۔پاس جاکے دیکھا تو وہ جوانی کی حدوں سے نکلتا ہوا کوئی سکھ تھا۔کہنے لگاکوئی سواری نہیں مل رہی اگر آپ مجھے نزدیک کسی نزدیکی زیر زمین ریلوے سٹیشن پر اتاردیں تو مہربانی ہوگیا۔ ہم نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر اسے بٹھالیا۔پنجابی زبان میں حال احوال دریافت ہوئے سکھ سردار نے بتایا کہ اسے دست شناسی کے علم پر بڑا عبور ہے۔ریلوے سٹیشن نزدیک آچکا تھا۔میرے بھائی نے اسے ایسے ہی ہاتھ دکھایا تو اس نے جھٹ سے کہا کہ آپ کا نام یہ ہے کیا۔ہم دم بخودرہ گئے۔ بھائی نے تیزی سے ہاتھ کھینچ لیا۔اتنے میں ریلوے سٹیشن بھی نزدیک آچکا تھا۔اس دست شناس سکھ کووہیں اتارا اور ایک طرف گاڑی کھڑی کرکے ہم حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ سب کچھ کیا ہے ۔پھر سوچا کہ شائد کہیں ملاہو،نام یاد آگیا ہو اور پھراتنے بڑے شہر میں ایساناممکن بھی نہیں۔ابھی چند یوم قبل سوشل میڈیا پر سابق سینیٹر طارق چوہدری بتارہے تھے کہ ضیاء الحق کے مرنے سے قبل انہیں پروفیسر صاحب نے (شائد پروفیسر احمد رفیق اختر)بتایا کہ آپ ضیاء الحق سے ملتے رہتے ہیں ،اگر نہیں ملے تو فورا ان سے مل کرکہو کہ موت تمہارے تعاقب میں ہے ۔چند دنوں بعد وہ آپ کو آن لے گی،محتاط رہیں۔میں کسی وجہ سے ضیاء الحق سے نہ مل سکاطارق چوہدری نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ایک دن صبح اٹھا تو معلوم ہواکہ جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے کا شکارہوکراگلی دنیامیں چلے گئے ہیں ۔میں فورادوبارہ پروفیسر صاحب کو ملاتو انہوں نے گلہ کیا کہ اگر بروقت تم ضیاء الحق سے مل لیتے تو وہ اپنی زندگی بچانے کا کوئی سبب بنالیتے ۔ ضیاء الحق کے بارے میںایسے ہی کچھ دعوے مرحوم مصطفے صادق اور اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف صاحب نے بھی کئے ،مگر مستقبل میں کیا ہونا ہے اس کا علم تو مولا کریم کی بجائے کسے بھی نہیں نہ کسی دست شناس کو اورنہ کسی اور کودست شناسی سے یاد آیا کہ ایک بار مختارمسعود چین گئے ۔ان کو گائیڈ کرنیوالے عملے میں ایک ننھی منی بچی بھی شامل تھی ،جس نے ان سے پوچھا کہ کیا آپکے ہاتھ میں تارے ہیںمختارمسعود یہ بات سمجھ نہ سکے ،بچی سے تاروں کی بابت دریافت کیاتو اس نے کہا کہ کیا آپکے ہاتھ پر محنت کرنے سے پڑنے والے چھالوں کے نشان ہیں۔تو وہ دنگ رہ گئے کہ چین میں محنت کے چھالوں کے نشانات کو عقیدت سے تارے کہاجاتا ہے ۔یہاں تک لکھا تھا کہ گوجرانوالہ بار کے رکن اور ایک بڑے تحقیقی مقالہ نگار، دانشور اور نقاد جاوید خاں ایڈووکیٹ کی بے وقت موت کی اطلاع ملی ،دل بجھ ساگیاکہ کیسے کیسے کم یاب لوگ اب نایاب ہورہے ہیں۔دل اس سے قبل ایک اوربڑے آدمی ،سکالر اور زندگی بھر دوسرے کیلئے جینے والے بار کے معزز رکن نذیر احمد باجوہ ایڈووکیٹ کے بہیمانہ قتل کے غم سے نہیں نکلاتھا کہ دوسرا دکھ بھی سہنا پڑا۔انکے ساتھ ہونیوالی ادبی محفلوں،سیاسی مجلسوں، فکری معرکہ آرائیوں،انکی باتوںاورانکی یادوں کے رنگ یاد آنے لگے ۔
آنکھوں میں اڑرہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024