سچ کوں سولی تے موت نئیں آندی
میں نے کتابوں کے تعارف کا سلسلہ جب سے شروع کیا ہے، ملک بھر سے درجنوں کتابیں موصول ہونے لگی ہیں۔بعض کتابوں کی تو صرف خبر ہی لگا پاتا ہوں کہ سب پر کھل کے گفتگو ممکن نہیں ہوتی تاہم کئی کتابیں ایسی بھی ملتی ہیں جن پرقدرے تفصیل سے بات کرنا پڑتی ہے۔ان میںبھی زیادہ تر ادبی کتابیں ہوتی ہیں جو میرے اس کالم کا موضوع بنتی ہیں۔آج کی دو نوںکتابیں سرائیکی شاعری پر مشتمل ہیں۔پہلی کتاب ڈیرہ شہر کے معروف شاعر کاظم شاہ نازک کا تیسراشعری مجموعہ ”امڑی “ ہے جو اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔اس کا انفراد یہ ہے کہ اس میں بے نقطہ کلام شامل کیا گیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ سرائیکی شاعری میں غالباً اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔کاظم شاہ کا اختصاص یہ بھی ہے کہ وہ نئی نسل کی پرورش میں بھی ہمہ تن مصروف ہیں۔کاظم شاہ نے اگرچہ سکول کی مروجہ تعلیم حاصل نہیں کی مگر ان کی دل کی آنکھ روشن ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ” ستارہءعطارد“ کی توجہ حاصل کر لینے میں زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ ان کا یہ مجموعہ کلام جہاں بے نقطہ ہونے کے سبب منفرد ٹھہرتا ہے وہیں اس کے مندرجات جدید ہونے کے ساتھ ساتھ روایت سے جڑے مضامین کے حامل ہیں۔غزلوں کے ساتھ نظمیں اور دوہڑے بھی درج ہیں۔ان کی شاعری میں اپنے وسیب کے دکھ درد بھی موجود ہیں اور ان کے داخلی معاملات بھی۔انہوں نے ساد ہ بیانیہ کو اہمیت دی ہے اوراپنے خیالات کو قاری سامنے من وعن پیش کر دیا ہے۔ اس بظاہر”بے نقطہ کلام“ میں کئی نکات ایسے ہیں جو قاری کی صوابدید پر چھوڑ دیے گئے کہ آخر اس کی بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں
کالے سوٹ ھ ءہے لٹیا ساکوں
دل وی گئی ہے کھسی گوری
ڈکھ اساڈے ڈوڑے ماہی
اساں راہ دے روڑے ماہی
........
اساں سادے سوداں کوں وی
لوکاں واری واری لٹا اے
........
ساڈے دل کوں درد مکا گئے
دل دے درد مکاوے ڈھولا
........
دل دی آس ادھوری رہ گئی
ہاں دے زخم ولا کے کُھل گئے
اس کتاب میں عبداللہ یزدانی، حبیب موہانہ ،عصمت گورمانی، مظہر نیازی،شانی خانی دامانی،مختیار ثناءاورجاذب شاہ کی توصیفی آرا بھی موجود ہیں، جس سے اس کتاب کی قدرو قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔شاعری ویسے بھی ایک مشکل کام ہے ،اس پہ بے نقطہ کلام!یہ مرحلہ طے کرتے ہوئے ،کاظم شاہ کو بعض مواقع پرمبادیاتِ شعر کی قربانی بھی دینا پڑی ہے مگر انہوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اسے بھی گوارا کر لیا۔ دوسری کتاب وہوا سے مایہ ناز شاعر جمشید ناشاد کی ”پپلیں ہیٹھ جہان“ہے ۔قبل ازیں ان کا شعری مجموعہ”پرلی کندھی“ شائع ہوکر داد و تحسین پا چکا ہے۔جمشید ناشاد سرائیکی شعر وادب کے حوالے سے شعراءکے اس قبیلے کا فرد ہے جس نے اپنی دھرتی کے مسائل کو اپنی ذات کا حصہ بنا کر شعر بنایا ہے۔جمشید ناشاد معاشرتی دکھوں ،المیوں اور اپنے لوگوں کی مشکلات کو جس موثر انداز میں پیش کرتا ہے ،اس کی مثالیں مشکل سے ملتی ہیں۔سادگی اور پرکاری ان کا وصف خاص ہے۔انہوں اپنے اشعار میں فکرکو بھی جگہ دی ہے اور اپنے جذبوں کو بھی۔جدید شاعری کے اس نمائندے کے ہاں علامتیں ،استعارے اور تشبہیں بھی نئی ہیں اور مضامین بھی ،یہ ایسی خوبی ہے جو بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے کہ وہ اپنے معاصرین سے قدرے الگ ہو کر چلتے ہوں،دوسری اہم بات شعریت ہے جو آج کل ناپید ہوتی جارہی ہے۔مجھے خوشی ہوئی کہ ان کا کلام اس خوبی سے مالا مال ہے۔ چند اشعار دیکھیے
تہوں میڈے منھ تے مونجھ دیاں جھریٹاں ہن
رات میڈی مونجھ نال منھ ماری تھئی اے
........
بھا تاں ساڈے سِر تے آنڑ بلی ھئ
پتے دھواں کتلے تونڑی ویسی
نویں سجھ دی تانگھ تنگھیندیں موئے تاں
ساڈا نوحہ ڈھلدی شام لکھیسی
........
ایں گالھوں تاں پھل ہمیشہ کھِلدن
پھلاں نال بہاراں حال ونڈیندن
محرم راز مہاری چپ ہوون تاں
اٹھیں نال مہاراں حال ونڈیندن
اچیاں بیریاں حال حوال نئیں سنڑدیاں
لانڑیں نال سِنواراں حال ونڈیندن
....
خدا وندا تیڈی ونڈ وی عجیب اے
تیڈی ونڈتے رویجے یا کھلیجے
........
ڈیوا ڈینہ کوں جگا کے مر ویندے
گھپ اندھارے کوں کھا کے مر ویندے
سچ کوں سولی تے موت نئیں آندی
کوڑ سیجھاں سُہا کے مر ویندے
اس طرح کے اور بھی کئی اشعار ہیں جنہیں نقل کرنے کو دل چاہتا ہے مگر کالم کا دامن تنگ ہے ،میں اس کالم کے توسط سے سرائیکی شعراءکی توجہ اس امر کی طرف بھی دلانا چاہوں کہ آج کل میڈی،تیڈی،اساڈے ،جیندے اور اس قبیل کے دوسرے الفاظ میں حرف”ی“ کو دیس نکالا دیا جانے لگا ہے جس سے ان کا حسن متاثر ہورہا ہے ۔مجھے امید ہے اصحاب علم و فن اس طرف توجہ دیں گے۔احمد ندیم قاسمی نے کہیں لکھا ہے کہ” شاعری میں سچ بو لنا کسی کسی کو آتا ہے“ ،میں سمجھتا ہوں جمشید ناشاد نے یہ مشکل مر حلہ بڑی خوش اسلوبی سے طے کیا ہے۔