اللہ کا شکر ایک اور رمضان المبارک ہمارے مقدر میں لکھا گیا۔ گزشتہ برس اس مبارک مہینے میں کتنے لوگ ہمارے ساتھ تھے‘ اب کے برس نہیں ہیں‘ کِسے خبر آئندہ برس کون ہو گا‘ کون نہیں ہو گا۔ سو اللہ پاک نے گناہوں سے توبہ کے لئے ایک اور رمضان المبارک کو ہماری زندگی کا حصہ بنایا تو ہمیں اُس کا شکر ادا کرنا چاہئے جو ظاہر ہے ہم اِس لئے نہیں کریں گے کہ ناشکری ہماری فطرت کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہے۔ ورنہ جتنی نعمتیں اللہ پاک نے ہمیں عطا کیں کسی ایک کا شکر ادا کرنے لگیں تو عمر بیت جائے اور معاملہ پھر یہ ہو حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ رمضان المبارک کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے ایک مسلمان کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے‘ ہم چونکہ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ’’پاکستانی‘‘ بھی ہیں تو ضروری نہیں جو کچھ ہمیں معلوم ہے اپنی زندگی کو اُس کے مطابق ڈھال لیں۔ سو رمضان المبارک ہو نہ ہو ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ اِس مبارک مہینے میں ہم زیادہ ’’صحت مند‘‘ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماہ رمضان پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے مبارک ہے مگر ہمارے لئے بعض حوالوں سے بہت ہی مبارک ہے۔ یہاں تک کہ جو خرابیاں اور برائیاں سال بھر ہم ذرا مشکل سے کرتے ہیں۔ رمضان المبارک میں آسانی سے کر لیتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک ’’گیسٹ ہائوس‘‘ کے مالک سے کسی نے پوچھا رمضان المبارک میں آپ کا ’’کاروبار‘‘ تو بند ہو جاتا ہو گا؟ جواب ملا ناں جی… اِس مبارک مہینے میں تو ہم زیادہ کماتے ہیں۔ پوچھا وہ کیسے؟ آپ یہاں گوشت‘ دالوں اور سبزیوں کی دکانیں کھول لیتے ہیں؟ فرمایا اصل میں اِس مبارک مہینے میں پولیس ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتی‘ منتھلی بھی نہیں لیتی۔ اُسے یقین ہوتا ہے ایک ماہ تک ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے حالانکہ جتنا ’’کاروبار‘‘ ہمارا اِس ’’مبارک مہینے‘‘ میں چمکتا ہے عام دنوں میں بھی نہیں چمکتا۔ بلکہ ہمارے کئی ’’مستقل گاہک‘‘ تو ’’سحری‘‘ اور ’’افطاری‘‘ بھی یہیں پر ہی کرتے ہیں!کہتے ہیں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔ ہم چونکہ شیطان سے زیادہ طاقتور ہیں تو ہم اُسے ضمانت پر رہا کروا لاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال بلکہ یقین تھا چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے بعد ضمانت پر اُس کی رہائی ممکن نہیں ہوا کرے گی‘ افسوس کچھ لوگوں کے اِس یقین کا بھی وہی حشر ہوا جو اِن دنوں چینی کے حوالے سے عوام کا ہو رہا ہے۔ شیطان کو قید کرنا اب ویسے ہی بڑا مشکل کام ہے کہ اِس کے کئی لیلے‘ چیلے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے بلکہ لیٹے ہوئے اُس کے مفادات کا پورا تحفظ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اِن میں سے کئی تو خود بڑے شیطان ہیں کہ رمضان کے مبارک مہینے میں بھی اُن حرکتوں سے باز نہیں آتے جِن کی وجہ سے ہمیشہ ذلیل و رسوا ہوئے لہٰذا رمضان کے آنے یا جانے سے اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے اِس مبارک مہینے میں اپنی طرف سے وہ فرشتہ دِکھائی دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں جس میں اِس لئے کامیاب نہیں ہو پاتے کہ لوگ اب اِن کے باہر سے ہی نہیں اندر سے بھی اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں۔ کوئی دو برس قبل اقتدار کے ’’ہیڈ آفس‘‘ میں افطاری کے بعد ایک ’’غزلیہ محفل‘‘ جمائی گئی‘ جس میں ’’غزل‘‘ نہ صرف گائی بلکہ سر پر گلاس رکھ کر نچوائی بھی گئی تھی۔ یہ سلسلہ صبح سحری تک جاری رہا اور افطاری کے بعد دوبارہ شروع ہو گیا۔ شکر ہے اقتدار کے ’’ہیڈ آفس‘‘ میں اب ایک ایسا شخص تشریف فرما ہے جو ’’مذہبی معاملات‘‘ میں اتنا محتاط ہے کہ اِس قسم کی محفلیں اگر جمیں بھی تو کم از کم اُن کی خبریں باہر نہیں آنے دیتا۔ بات ہو رہی تھی ’’محترم شیطان‘‘ کی‘ جس کے بارے میں عام تاثر یہی ہے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں اِسے قید کر دیا جاتا ہے۔ تو جناب عرض یہ ہے وہ کوئی بہت ہی معمولی بہت ہی کمزور شیطان ہو گا جسے قابو کر کے قید میں ڈال دیا گیا تھا۔ اب تو اتنے بڑے بڑے شیطان ہیں قید کرنا تو درکنار قابو کرنا مشکل ہوا جاتا ہے۔ سب سے بڑے شیطان تو ہم خود ہیں تو کوئی ہمیں قابو کر کے دیکھے؟ البتہ دنیا کو دکھانے اور بتانے کے لئے ضروری ہے کہ رمضان المبارک میں شیطان ہمارے ہاں قید کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس یہی ’’خوشخبری‘‘ سن کر رمضان المبارک میں ایک گورے نے پاکستان آنے کا رِسک لے لیا تھا۔ سنا ہے آج کل وہ یہاں روزے رکھتا ہے اور روزے رکھ کر وہی کچھ کرتا ہے جو اپنے ملک میں وہ بغیر روزے رکھے کر لیا کرتا تھا!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024