کیتھولک فرقے کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے جس پر تمام دنیا نے تعزیت کی۔ ان کی تدفین میں دنیا بھر کے ریاستی وفود جا رہے ہیں لیکن ایک صہیونی سفارت کار ڈرور ریدار نے اسرائیلی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا وفد نہ بھیجے کیونکہ پوپ ہمارے دشمن تھے، انہوں نے غزہ کے بچوں کے قتل عام کی مذمت کی تھی اس لئے ان کے جنازے کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔
پوپ فرانسس نے ایک بار نہیں، بار بار غزہ کی بھیانک نسل کشی کی مذمت کی۔ اسرائیل نے غزہ کو بارود اور آگ سے بھسم کر کے رکھ دیا اور باقی ماندہ آبادی سے ان کا رقبہ بھی چھین رہا ہے اور انہیں بھوک سے بھی مار رہا ہے۔ پچھلے دنوں اسرائیل کے کسی لیڈر کا بیان آیا کہ ہم تو انسانیت اور انسانی اقدار کے بچائو کی جنگ لڑ رہے ہیں دنیا ہمارا ساتھ دے۔ فی الحال دنیا کسی کا ساتھ نہیں دے رہی۔ نہ اسرائیل کا، نہ غزہ کا، گو کہ کسی کا ساتھ نہ دینے کا مطلب ایک ہی نکلتا ہے، وہ یہ کہ ہم اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔
کیتھولک ازم مسیحیوں کا سب سے بڑا فرقہ ہے جس کے پیروکاروں کی تعداد ایک ارب 40 کروڑ یا اس سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ماضی میں مسلمانوں کو جتنی بھی صلیبی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا، وہ کیتھولک، مسیحیوں کی طرف سے مسلّط کی گئیں لیکن سامراجی دور کے خاتمے کے بعد، عیسائیت کو خالص بنانے کا دعویٰ کرنے والے پروٹسٹنٹ روم نے مسلمان دشمنی کا علم اٹھا لیا، خاص طور سے اس کے اس ذیلی فرقے نے جس کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے۔ اس فرقے نے یہ عقیدہ گھڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی تب تک ممکن نہیں ہو گی جب تک یروشلم کو کفار سے پاک کر کے، مسجد اقصیٰ کو گرا کے اس کی جگہ معبد سلیمانی نہیں بنا دیا جاتا۔
کفّار سے مراد مسلمان ہیں۔ یعنی یہودی جو حضرت عیسیٰ کو نبی نہیں مانتے، جنہوں نے انہیں صلیب پر چڑھا دیا، وہ کفّار نہیں ہیں، اور مسلمان جو آپ کو اللہ کا جلیل القدر پیغمبر مانتے ہیں ، وہ کافر ہیں۔ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد اس فرقے اور صہیونی یہودیوں، دونوں کو یقین ہے کہ اب یروشلم کو مسلمانوں سے پاک کرنے اور مسجد گرانے کے دونوں مقاصد پورے ہو جائیں گے۔ صہیونی منصوبے کو بعض اہم ترین عرب ممالک کی اخلاقی ہی نہیں ، مادی مدد بھی حاصل ہے۔ یعنی پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔ صنم سے مراد سامری کا گوسالہ ہے۔ جو سونا ڈھال کر بنایا گیا تھا۔
صہیونی اور ٹرمپ کا فرقہ مسیحیت کے پیروکار ہیں نہ موسویت کے، یہ سامریت کے پیروکار، سونے کے گوسالے کے پجاری ہیں۔ ان کی جنگ مسلمان سے نہیں، خود حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے خلاف ہے۔
_____
مقبوضہ کشمیر میں پہلگام کے قریب دہشت گردی کے واقعے میں 28 سیاح مارے گئے۔ افسوسناک سانحہ ہے لیکن دیکھئے، حملہ ہوتے ہی بھارت میں بی جے پی کے سوشل اور نان سوشل میڈیا نے نیز بی جے پی کے بعض رہنمائوں اور سفارت کاروں نے سانحے کے بعد ایک منٹ ضائع نہیں ہونے دیا اور جھٹ سے الزام پاکستان پر لگا دیا۔
خیر اس میں میرٹ کی بات نہیں کہ :
یہ تو ان کی ہے عادت پرانی۔
البتہ اس بار پھرتی پر ضرور حیرت ہوئی۔ مزید انوکھی (بلکہ شاید فطری) بات یہ ہوئی کہ ہمارے ہاں، کے جو ’’عناصر‘‘ پہلے ٹرمپ سے امیدیں لگائے ہوئے تھے کہ وہ پاکستان کو چھٹی کا دودھ یاد دلانے والا ہے، اب بھارت سے امیدیں جوڑ بیٹھے ہیں کہ جو کام ٹرمپ نے نہیں کیا، اب مودی کرے گا اور ہمیں حقیقی آزادی دلائے گا۔ رات سے ان کے سوشل میڈیا نے کہرام مچا رکھا ہے
اس ’’برین ڈیڈ کلٹ‘‘ سے اور امید کی بھی کیا جا سکتی ہے۔
_____
پی ٹی آئی کے آپس میں بھڑتے ہوئے لیڈروں میں سے ایک مسمی سلمان اکرم راجا نے کہا ہے، اب (وقت آ گیا ہے کہ) قوم یہ فیصلہ کر لے کہ اس نے آئین کو بچانے کیلئے اٹھنا ہے یا نہیں۔
آئین سے کیا مراد ہے؟۔ شاید راجہ جی نے مرشد کا نیا عرفی نام رکھا ہے۔ اس سے پہلے مرشد کا عرفی نام ’’اولوالامر‘‘ اور ’’صاحب امربالمعروف‘‘ رکھا گیا تھا۔ وہ تو زیادہ دن نہیں چلا، اب یہ آئین خاں والا نیا نام کتنے دن چلے گا ، دیکھتے ہیں۔
جہاں تک قوم کے فیصلے کا تعلق ہے تو وہ تو کب کا کر چکی۔ پچھلے تین برسوں میں تین سو (شاید تھوڑی سی کم) کالیں دی گئیں، قوم نے سب مسترد کر دیں۔ ہاں، صوابی کی نسوار منڈی کے پاس کچھ اجتماعات وغیرہ وقفے وقفے سے ہوتے رہے لیکن رفتہ رفتہ یہ نسوار منڈی بھی مندی کی لپیٹ میں آ گئی۔ بلیک لیبل اسلامی شہد کی طلب بھی بہت کم رہ گئی، اتنی زیادہ کم کہ شہد فیکٹری کے بند ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
_____
کراچی میں ایک شوہر نے اپنی بیوی کو زندہ آگ میں جلا ڈالا۔ مہتاب نامی اس قاتل کو گزشتہ روز ماتحت عدلیہ نے 12 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
سزا کچھ زیادہ نہیں؟۔ بارہ دن قید بھی کافی تھی۔
مہتاب نامی اس درندے نے دو جرم کئے۔ ایک قتل، دوسرا اذیت ناک موت دینے کا جرم۔ بہرحال عدالت کے خیال میں یہ دونوں جرم اتنے سنگین نہیں تھے کہ بڑی سزا سنائی جاتی۔ ہمارے ہاں بیویوں بہنوں بچوں اور بچیوں کا قتل بالعموم معمولی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ دو ہفتے قبل یہ خبر آئی تھی کہ تین افراد کو ٹوکے سے قتل کرنے والے مجرم کو ماتحت عدلیہ سے موت کی سزا ہوئی، ہائیکورٹ میں اپیل ہوئی تو موت کی سزا کالعدم کر کے دس سال قید میں بدل دی گئی۔ یعنی سوا تین سال قید فی قتل۔
ایوان صدر کی مہربانی سے ہر عید بقر عید قومی تہوار وغیرہ پر ہر قیدی کی سزا چند مہینے کم کر دی جاتی ہے۔ گویا دس سال قید عملاً چار پانچ سال کی رہ جاتی ہے۔ اوپر سے قاتل کا چال چلن اچھا ہو (کیا خوب) تو جیل سپرنٹنڈنٹ بھی اس رعایت میں حصہ ڈالتا ہے۔ ہمارا نظام قاتل دوست ہی نہیں، قاتلوں کا پرستار بھی ہے۔
_____
پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر نے بیان دیا ہے کہ 15 ارب کا اعلان کر کے حکومت نے کسانوں کا مذاق اڑایا ہے اور یہ کہ اگلے سال کسان گندم کاشت نہیں کریں گے۔
اس بیان سے خیال آیا کہ مسلم لیگ کی حکومت نے تین سال سے گندم کے خلاف اعلان جہاد کر رکھا ہے، اس کی وجہ کیا ہو کتی ہے (عمران خاں کی سبکدوشی کے بعد مسلم لیگ نے حکومت بنائی، اسی کا تسلسل نگران حکومت تھی ، پھر الیکشن کے بعد سے بھی اسی کی حکومت ہے)
بظاہر برائی سے نفرت ہی اس جہاد کی وجہ لگتی ہے۔ دانہ گندم کی وجہ سے آدمؑ کو جنت چھوڑنا پڑی، اب گندم کو اسی پر سبق سکھایا جا رہا ہے۔
دانہ گندم کیخلاف جہاد
Apr 24, 2025