سوال اٹھانا، نئے زاویے سے سوچنا، اختلاف کو برداشت کرنا اور وقت کے ساتھ خیالات میں نرمی یا تبدیلی لانا زندہ اور باشعور ذہن کی علامت ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد اپنے مؤقف کو آخری سچ سمجھنے لگے اور اجتماعی رویوں میں قطعی انداز غالب آ جائے تو وہاں شدت پسندی، عدم برداشت اور نفرت پروان چڑھتی ہے۔
یقیناً , لازماً ، قطعاً ،بلاشبہ ، ہرگز نہیں ، ، ناقابلِ تردید ، ناقابلِ ترمیم اور اسی نوع کے یک رخی اور غیر لچکدار طرزِ فکر کی ترجمانی کرنے والے بہت سے الفاظ ہماری روزمرہ گفتگو، طرزِ بیان اور اجتماعی فکری رویوں میں اس قدر سرایت کر چکے ہیں کہ ہمیں نہ ان کی سختی کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے منفی اثرات یا ممکنہ نقصانات کا ادراک باقی رہتا ہے۔
قطعی اور حتمی طرزِ فکر اور اس کا اظہار بظاہر وقتی طور پر نقصان دہ نہیں لگتا، مگر وقت کے ساتھ یہی رویہ فرد اور معاشرے کی فکری نشوونما کو جمود کا شکار بنا دیتا ہے، سماج کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتا ہے اور اسے تقسیم و انتشار کی راہوں پر ڈال دیتا ہے۔ ایسے یقینی اور فیصلہ کن کلمات ہمارے تعلیمی نظام، مذہبی تعبیرات، اور تربیتی سانچوں کی عکاسی کرتے ہیں اور ہماری معاشرتی ذہنیت کے آئینہ دار بھی ہیں۔ معاشرے میں جا بجا ہمیں ایسے طرزِ عمل دکھائی دیتے ہیں جو انسانی ربط و ضبط اور باہمی ہم آہنگی کو مجروح کرتے ہیں اور سماجی نظم پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ذرا سی بات پر غصے سے بھڑک جانا ، ہر بات کا منفی پہلو دیکھنا ، خود کو ’خدائی فوجدار سمجھتے ہوئے دوسروں پر اپنی منشا مسلط کرنا اور تعصب اور تنگ نظری کے بہت سے ایسے مظاہرے اب روزانہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ فردہوں یا گروہ، جب اپنے نظریات کو مطلق سچ مان کر باقی تمام زاویوں اور نقطہ ہائے نظر کو خارج از بحث قرار دیں تو گفتگو مکالمہ نہیں رہتی، بلکہ ایک مقابلہ بن جاتی ہے۔ جہاں مقصد سمجھنا یا سیکھنا نہیں بلکہ کسی بھی حربے سے غالب آنا ہوتا ہے۔
یہ ذہنیت کن ذرائع سے پروان چڑھتی ہے اسے سمجھنے کے لیے کسی گہری تحقیق کی ضرورت نہیں، بس اپنے اردگرد کے ماحول پر کچھ توجہ اور غور و فکر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کن غیرمحسوس عوامل سے یہ سوچ نہ صرف زندہ ہے، بلکہ مسلسل توانائی پا رہی ہے۔ معاشرتی زندگی کے اولین تجربات فرد کے سوچنے کے انداز کی تشکیل کرتے ہیں گھر، جو فرد کی پہلی درسگاہ ہوتا ہے، اگر وہاں والدین کا سخت گیر یا آمرانہ رویہ حاوی ہو جائے اور وہ اپنی ہر بات کو حتمی سچ سمجھ کر بچوں پر مسلط کرنے لگیں، تو ایسی تربیت کا نتیجہ ایک ایسا فرد ہوتا ہے جو بلا سوچے سمجھے اطاعت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ صرف یہیں نہیں رکتا بلکہ جب اْسے خود اختیار ملتا ہے تو وہی فرد، جو کل تک حکم ماننے کا عادی تھا، دوسروں پر اپنا نقطہ نظر مسلط کرنے لگتا ہے۔ اسکول میں بھی تعلیم کا محور رٹّا لگانے اور حکم کی تعمیل پر ہوتا ہے اور تمام علم و معلومات کو بغیر تنقیدی سوچ کے جذب کرنا سکھلایا جاتا ہے۔ مذہبی ماحول میں ہر بات کو حرفِ آخر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اجتماعی معاشرتی تربیت کا ڈھانچہ بھی اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جو فرد کی ذہنی آزادی اور فکری نشوونما کی بجائے، روایتی جمود کو تقویت دیتا ہے۔
یوں رفتہ رفتہ ہر معاملے میں اپنی رائے کو ‘حرفِ آخر’ سمجھنا اور اسے دوسروں پر لاگو کرنا ایک فطری عمل محسوس ہونے لگتا ہے۔ اختلافِ رائے برداشت کرنے کی صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے، اور بات سننے کا ظرف بھی ختم ہو جاتا ہے۔لچکدار، سوالیہ اور مکالمہ خیز زبان کمزور لگنے لگتی ہے۔ خود کو طاقتور اور بااختیار ظاہر کرنے کرنے کے لیے سخت، فیصلہ کن اور حاکمانہ لب و لہجہ اختیار کیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا اس رجحان کو مزید ہوا دیتا ہے۔
یہی عدم برداشت اور بند ذہنیت ہمیں اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ زندگی میں لچک، تنوع اور سیکھنے کی گنجائش ہی ارتقاء کی بنیاد ہے۔ جب سوچ حتمی، غیر لچکدار اور دو انتہاؤں پر مبنی ہو — جہاں ہر بات یا تو سراسر غلط ہو یا مکمل درست — تو فہم و شعور کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ ایسی فکری شدت بالآخر نفرت، تفریق اور جمود کو جنم دیتی ہے، جو نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو مجروح کرتی ہے بلکہ علمی و معاشی ترقی کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ وطن عزیز میں زبان، ثقافت، نظریات اور روایات کا حسین امتزاج موجود ہے، یہاں کی تہذیب، فنونِ لطیفہ اور صوفیانہ ورثہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ معاشرہ فکری وسعت، رواداری اور تنوع کا علمبردار رہا ہے مگر اب جامدحتمی سوچ ، قطعی اور اٹل رویے ایک ایسی رکاوٹ بن چکے جو تنوع اور قبولیت کی فضا کو محدود کر کے معاشرے کو بے کیف ماحول اور انجانے خوف کے حصار میں قید کر رہے ہیں۔ حتمی سوچ سے نجات کوئی وقتی عمل نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جو برداشت اور خود احتسابی کا تقاضا کرتی ہے لہٰذا، انفرادی سطح پر ہمیں اپنی روش بدلنے کی سعیِ پیہم جاری رکھنی چاہیے۔
حرفِ آخر :قطعی اور حتمی طرزِ فکر
Apr 24, 2025