مْردہ معاشرے کی زندہ لاش 

زندہ معاشروں میں لوگ جب کبھی غمی،خوشی یا کسی اور سوشل gathering پر اکٹھے ہوتے ہیں تو اکثر اوقات ایسے موقعوں پر  ان کی بات چیت کا محور اہم واقعات، نئی ایجادات یا ماڈرن ٹرینڈز ہوتے ہیں جبکہ اس کے برعکس دنیا میں ایسے معاشرے بھی پائے جاتے ہیں جہاں جب بھی دو آدمی ملتے ہیں تو ان کے درمیان بات کھانے سے شروع ہو کر کھانے پر ہی ختم ہوتی ہے اور بلاشبہ اہل فکر ایسے معاشروں کو مردہ معاشروں سے تعبیر کرتے ہیں۔
آج میں خرم شہزاد نامی جس شخص پر بات کرنے چلا ہوں مختلف حوالوں سے رشتہ کے لحاظ سے ہماری فیملی کا داماد تھا۔ خوش شکل، خوبرو اور مالی طور پر مستحکم ہونے کے باوجود کسی گھمنڈ یا تکبر کی بجائے عجز و انکساری کے ساتھ جب بھی ملتا اسکے چہرے کی سْنہری مسکان ایسے رنگ بکھیرتی کہ سامنے والے کا دل بے موہ خرید لیتی۔ یہ اسکی ذات کا کمال تھا یا آنکھوں کا سحر۔  گو کہ وہ بات بہت کم کرتا تھا لیکن پھر بھی وہ آپکو اپنی شخصیت کا گروہ دیدہ بنا لیتا۔ خْرم کا بچپن مزنگ کی گلیوں میں گزرا۔ اس کا تعلق بھٹی برداری سے تھا لیکن اس بچے کی شادی شیخوں میں ہوئی اور وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور جس کا مجھ سمیت ہم سب شکار ہیں کہ اپنوں سے زیادہ سسرالیوں کا رنگ چڑھتا ہے، شیخوں نے خْرم کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ میرا بیٹا بھی انہی شیخوں میں بیاہا گیا ہے اور ماشاء اللہ خْرم بیٹے کی طرح اپنی منزل کی طرف خاموشی سے بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ شیخوں کی اس فیملی کو دیکھتا ہوں تو ممتاز مفتی یاد آ جاتا ہے جس نے اپنی تصنیف ‘‘الکھ نگری’’ میں ایمن آباد کی شیخنیوں کی جن تین صفات خوش شکل، سْگھڑ پن، پکانے کا فن اور سب سے بڑھکر ان تین صفات کی بنیاد پر میاں کو سرنگوں رکھنے کے جس ہْنر کا تذکرہ کیا ہے اس کا ایک ایک لفظ یہاں سچ نظر آتا ہے جبکہ اسی قصبہ ایمن آباد کی ککے زین احمداں کے کردار کے متعلق بھی اسکی تحریر بتاتی ہے کہ بڑے بوڑھے اپنے تجربات کی روشنی میں ذات برادری کے روئیوں بارے جو کچھ کہہ گئے وہ حقیقتوں کے کتنا قریب ہوتا ہے۔ کہتے ہیں سچ وہ جو بندہ اپنی زبان سے بولے، گو کہ میں نہ ہی شیخ ہوں اور نہ ہی بٹ اور نہ ہی ذات برداری پر یقین رکھتا ہوں لیکن معذرت کے ساتھ بغیر کسی تعصب کے یہ اقرار کرتا ہوں کہ میں بھی شیخوں اور بٹوں کی طرح ہر وقت کھانے پینے کے متعلق ہی سوچتا رہتا ہوں اور محفل میں جہاں بھی بیٹھوں زیادہ تر باتیں کھانے پینے کے متعلق ہی کرتا ہوں کیونکہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ میں بھی اس معاشرے کا حصہ ہوں جہاں اکثریت کی سوچ کی سمت کسی نہ کسی حوالے سے پیٹ سے جْڑی ہوتی ہے۔ آج سے سولہ سال پہلے برخوردار کی شادی کی تو اسکے سسرال والے شیخوں نے جن میں مظہر صاحب، حاجی اختر صاحب ، اشتیاق صاحب، شاہد پاپے، مرحوم حاجی اشفاق صاحب اور کئی دوسرے رشتہ دار شامل تھے، دل کھول کر دعوتوں کا اہتمام کیا۔ جیسے اوپر عرض کر چکا کہ جس بیمار معاشرے سے ہمارا تعلق ہے وہاں طرح طرح کے کھانوں کے علاوہ اور بات بھی کیا ہو سکتی ہے تو خْرم برخوردار اکثر اوقات ‘‘مزنگ اڈے’’ کے ‘‘ توا قیمہ’’ کے حوالے سے بڑے زور سے یہ بات کہتا کہ انکل آپکو کسی دن یہ قیمہ ضرور کھلانا ہے۔ اور پھر پکے لاہوریئے کی طرح ہماری ظرافت کی حس بھی پھڑک اْٹھتی اور ہم خْرم کو کہتے ‘‘ پْتر بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان اپنی زندگی میں الیکشن جیت سکتا تھا لیکن ہمیں اپنی زندگی میں تمہاری طرف سے اس قیمہ کے کھانے کی اْمید پوری ہوتی نظر نہیں آتی’’ ہمارے اس مزاح کو وہ معصوم کبھی دل پر نہ لیتا بلکہ اپنی روائیتی دلنشین مسکراہٹ کے ساتھ کہتا انکل آپ وقت تو نکالیں۔ وقت کتنا ظالم ہے آج اْس خوبصورت نوجوان خْرم جسکی عمر بمشکل اکتالیس بیالیس سال ہو گی اور جو گزشتہ تین سالوں سے بلڈ کینسر جیسے مْوذی مرض سے لڑ رہا تھا اسکا وصال ہو گیا ہے۔ سوچ رہا ہوں یہ زمین بھی کیا قدرت رکھتی ہے۔ کہیں پر اناج کی شکل میں انسان کے زندہ رہنے کے لیئے اپنے اندر سے رزق اْگلتی ہے تو کہیں اسی انسان کو پھر  اپنی خاک کا رزق بنا لیتی ہے۔ سوچ رہا ہوں اسکی بیوہ عمارہ جو اس کی زندگی میں کھانے کی پلیٹ تک اس کا ساتھ نبھاتی تھی، آج خرم کی رحلت اسکی بیوہ کیلیئے کیسے ظْلم کا پہاڑ بن کر گری ہو گی۔ اسکی بے وقت  موت پر اسکے چھوٹے چھوٹے بچے اویس وغیرہ کس کرب سے گزر رہے ہونگے۔ اور تو اور بڑھاپے میں اسکے والد پر کیا قیامت گزر رہی ہو گی، انہی سوچوں میں گْم کھڑا ہوں کہ انہی لمحات میں اسکی تدفین کے بعد اس خاکسار کے کانوں سے مولوی صاحب کی یہ دلخراش آواز ٹکرا رہی ہے کہ تمام احباب تدفین کے بعد گھر پر کھانا کھا کر جائیں۔ قارئین یہ الفاظ سْن کر مجھ جیسا شخص جو ہر وقت کھانے کی باتیں کر کے اور سْن کر خوش ہوتا ہے آج اْسے بھی لگا کہ وہ ایک مردہ معاشرے کی زندہ لاش ہے اور اْس نے آج اگر اس جواں مرگی پر کھانے کا ایک لقمہ بھی لے لیا تو وہ میرے پورے جسم میں زہر گھول دے گا۔ قارئین سوچ رہا ہوں مجھے آج ایسا کیوں لگا۔ شائد اس لیئے کہ خْرم میرے بیٹوں جیسا تھا اور آج اسقدر جوان موت کو میں نے اتنے قریب سے دیکھا ہے۔ کہتے ہیں جس تن لاگے وہ تن جانے، مجھے آج احساس ہو رہا ہے کہ کس قدر بے حس معاشرے سے ہمارا تعلق ہے ہم بے حس ہی نہیں بلکہ اس سے آگے کی بھی کئی منزلیں طے کر چکے۔ موت والے گھر طرح طرح کے کھانے اور اوپر سے مسجد میں بیٹھے قران خوانی کی بجائے خوش گپیاں یہ لاغرپن کی انتہاء ، ذرا غور کریں کیا یہ ہمارے اسلام کا درس ہے یا یہ سب کچھ ہم نے اس ہندو کلچر سے مستعار لیا ہے جس کے لئے ہم نعرہ لگایا کرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الاہ الا اللہ!
٭…٭…٭

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن