ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
حکومتی دعوئوں بیانات اور نوٹس لینے کی روایت کے باوجود نہ تو مہنگائی کے جن پر قابو پایا جا سکا ہے اور نہ ہی زندگی کے کسی شعبے میں واضح تبدیلی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ قومی صوبائی علاقائی اور مقامی سطح پر عوامی مسائل جوں کے توں ہیں کھلی کچہریوں کے خاطر خواہ نتائج نہ نکلنے کے بعد اب حکومت کی طرف سے لگائے گئے رمضان بازار بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز پر لگی لمبی لائنوں کے باوجود عوام کو سستی چینی تو مہیا نہیں کی جا سکی البتہ کرونا کے کیسوں میں ضرور اضافہ ہو گیا ہے کمشنر صاحبان کی طرف سے پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو شوکاز نوٹس دینے، چھاپہ مار ٹیموں کے گلی محلے کی دکانوں پر چھاپے مارنے اور ریٹ لسٹ چیک کرنے کے باوجود رمضان المبارک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں گڈ گورننس اورعوامی ہمدردی کا پتہ تو اس وقت چلتا جب اس ماہ مقدس میں سوئی گیس، بجلی اور دیگرعوامی مسائل حل ہوتے نظر آتے لیکن صورتحال تو جوں کی توں بلکہ پہلے سے بھی دگرگوں دکھائی دے رہی ہے۔ ان کالموں میں متعدد بار عوامی مسائل کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلتا ہے ہمارے جہاندیدہ سینئر صحافی اور کالم نگار محترم میاں غفار کا یہ کہنا درست ہے کہ معاشرتی سطح پر ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہومیو پیتھک طریقہ علاج سے بات آگے جا پہنچی ہے ۔ یوں بھی ہماری اسمبلیوں میں مچھلی بازار کی صورتحال دکھائی دیتی ہے اس میں عوامی مسائل پر بات کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے کی کوششیں جاری ہیں۔ گالم گلوچ اور دھمکی آمیز بیانات کا سلسلہ شروع ہے اسی طرح زندگی کے سبھی شعبوں میں یہی لگتا ہے جیسے گلستان کی ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے لیکن یہ سارے الو اتنے سیانے ہیں کہ اپنا الو سیدھا کئے جاتے ہیں اور بیچاری عوام یہ سارا تماشا دیکھتی اور اپنا سر پیٹتی نظر آ رہی ہے۔ شہر میں سوئی گیس، بجلی اور سیوریج کے مسائل کے آگے عوام بیچاری بے بس ہے۔ شہر میں بجلی کا بریک ڈائون ہو جائے تو فوری طور پر معاملات حل نہیں ہو پاتے۔ رمضان المبارک میں روزہ داروں کی سہولت تودور کی بات رہی سوئی گیس کہیں ہے اور کہیں نہیں ہے والی صورت میں دستیاب ہے۔ سیوریج کی یہ صورتحال ہے کہ ہمارے شہر کی وحدت کالونی جو ملتان کی قدیم گورنمنٹ کی کالونی ہے پانی کے جوہڑوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور اس کے مکین آمدورفت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ سابق کمشنر محمود جاوید بھٹی نے وحدت کالونی کی حالت زار کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ترقیاتی ادارے کیا کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔ وحدت کالونی ملتان کے رہائشی افسران نے کمشنر ملتان سے موٹربوٹس کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ وحدت کالونی جو حکومتی افسران کی رہائشی کالونی ہے میں سیوریج لائنیں ڈالنے والے ٹھیکے دار کی بے تدبیری سے یہ مسائل سامنے آئے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایم ڈی اے اور واسا کے اعلیٰ افسران سے یہاں کے مکینوں کے ذاتی تعلقات کے باوجود بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی یعنی معاملہ
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
والا بنا ہوا ہے۔
یعنی خواص کے ساتھ یہ صورت ہے تو پھر عوام الناس کا تو پہلے ہی اللہ حافظ ہے۔
ہمارے اکثر اداروں کی تنزلی اور عوامی مسائل حل نہ کرنے کی ایک وجہ افسران بالا کا ہر وقت روایتی میٹنگ میں مصروف ہونا اور درباریوں اور خوشامدیوں کے جھرمٹ میں راجا اندربنے اور نرغے میں پھنسے رہنا بھی ہے۔ عوام کی آواز تو محض نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر ہی رہ جاتی ہے اور ان تک عوامی مسائل پہنچ ہی نہیں پاتے حل کیونکر ہوں۔
جب تک ضلعی افسران اور دیگر عوامی اداروں کے اعلیٰ افسران کے خلاف حکومت کی طرف سے فوری اور تادیبی کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی ان کی کارکردگی کے لیے حکومتی سطح پر سروے نہیں کیا جائے گا اس وقت تک صورتحال یوں بھی معاشرے کے پھیلے اور بڑھتے ناسور کیلئے اب نہ تو ہومیو پیتھک تحریریں کچھ اثر ڈالتی ہیں نہ ہی اس قسم کا طریقہ علاج کارگر ثابت ہو سکتا ہے اب تو کسی تیر بہدف نسخے کی اشد ضرورت ہے فوری آپریشن بلکہ آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے ۔