میں دہشت گردی کی الف بے بھی نہیںجانتا لیکن جو اس سائنس میں یکتا ہیں ۔ وہ بھی اس پر قابو پانے اور اسے سمجھنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کیلئے میرے سامنے نیوزی لینڈ۔ بلوچستان اور سری لنکا کی حالیہ دہشت گردی کی مثالیں ہیں۔
مجھے کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے باقی دنیا کے مقابلے میں دہشت گردی پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ۔ امریکہ اوراس کی اتحادی فورسز ہمارے مقابلے میںعشر عشیر کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں بلکہ بعض صورتوں میں یہ یقین کرنے کے لئے قوی دلائل اور شواہد موجود ہیں کہ ان طاقتوں نے دہشت گردی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
اب یہ جو بلوچستان اور سری لنکا میں دہشت گردی ہوئی ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے اور دنیا نے زبانی کلامی اس کی بے حد مذمت کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا مگر مچھ کی طرح ٹسوے بہانے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ کیا یہ غور کرنے کی ضرورت نہیںکہ سری لنکا نے اٹھائیس برس تک قربانیاں دیں اور تامل ٹائیگرز کے خلاف ا سوقت تک جنگ لڑی جب تک آخری باغی نے ہتھیار نہیں ڈال دیئے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ سری لنکا کو دہشت گردی کی جنگ جتوانے میں پاک فوج کااہم کردار ہے ۔ اور اسی پاک فوج نے اپنے ملک کے اندر دہشت گردی کے طوفان کامنہ موڑ کر ر کھ دیا، آج ہی آئی ایس پی آر کے سربراہ نے اعدادوشمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ کراچی میںجرائم پر کس حد قابو پایا جا چکا ہے ۔ اس پر ہماری افواج ا ور دیگر سکیورٹی ادارے بجا طور پر داد کے مستحق ہیں مگر لگتا یہ ہے کہ ہمیں سکون کا سانس میسر نہیں آئے گا۔ اس شک کو سری لنکا کی دہشت گردی نے تقویت دی ہے۔ ایک ملک جو دہشت گردی کو بھول بھال گیا تھا،۔ اچانک وہاں ایک خونی آندھی چلی ا ور ایک ہی روز میں سینکڑوںلاشے تڑپے جس کی بظاہر کوئی وجہ نہیں لیکن اس وجہ کو سمجھنا مشکل بھی نہیں۔ سری لنکا چین کے ون بیلٹ ون روڈ کا اہم حصہ ہے اور یہاں کی بند رگاہوں تک چین رسائی حاصل کر چکا ہے بلکہ سری لنکا کے ڈیفالٹ کر جانے کی وجہ سے چین نے سری لنکا کی ایک بندرگاہ پر قبضہ بھی جما لیا ہے۔ یہ سب کچھ معاہدے کے مطابق ہوا۔ اب مجھے ذرا بھر شک نہیں کہ سری لنکا جیسے پر امن ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی اصل وجہ چین کا تجارتی منصوبہ ہے جسے حریف عالمی طاقتیں ہر صورت میں ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ پاکستان بھی چین کے عالمی تجارتی منصوبے کا بنیادی جزو ہے بلکہ جزو لا ینفک۔ پاکستان کی گوادر کی بندر گاہ چین کو گرم پانیوں تک رسائی فراہم کرتی ہے اورو ہ بھی انتہائی کم فاصلہ طے کر کے۔باقی سارے روٹ طویل ہیں۔
اگرچہ پاکستان نے ا علان کیا تھا کہ سی پیک کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے پاک فوج میں ایک خصوصی ڈویژن کھڑا کیا جائے گا۔ مجھے نہیںمعلوم کہ یہ ڈویژن بن گیا یا نہیں ۔ بن بھی گیا ہے تو لوگوں کے ذہن میںسوال پیدا ہوتا ہے کہ جس تجارت میں بڑا فائدہ چین کو ہے۔ اس کی سکیورٹی کا بند وبست بھی چین ہی کو کرنا چاہئے۔ پاک چین تجارتی تفاوت اس قدر ہے کہ بیان کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ چین ہمیں پچیس بلین کی اشیا بھیجتا ہے تو ہم صرف دو بلین کی اشیا اسے برآمد کر پاتے ہیں اورا سوقت پاکستان کے جو حالات بن گئے ہیں ۔ ان کے پیش نظر یہ شرح بھی برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ چین نے سی پیک کے راستے صرف پاکستان کو ہی ا شیا نہیں بھیجنی بلکہ ساری دنیا تک پھیلانی ہیں۔ تو پھر چین کو اپنے تجارتی روٹ کی سیکورٹی کا بندو بست بھی خود سے کرنا چاہئے۔پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کی جنگ میں ہلکان ہو چکا ہے۔ اسے وہ اخراجات بھی نہیں دیئے گئے جو طے شدہ تھے ، اگر کبھی کوئی قسط دی بھی گئی تو مینگنیاں ڈال کر اور ڈو مور کے تقاضے بھی سننے پڑے۔ صرف ایک حقانی گروپ پر کیا موقوف، اب تو جیش محمد۔ لشکر طیبہ ، جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت کے خلاف بھی ڈو مور سننا پڑ رہا ہے۔
اس کے بر عکس بھارت ہے جو بڑے سکون سے چاہ بہار کی بندر گاہ کی توسیع میںمصروف ہے،۔ امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ایرانی پاسداران انقلاب تک کو دہشت گردقرار دینے کی دھمکی دے ڈالی ہے مگر اسے بھارت پر کوئی اعتراض نہیں جو ایران کے ساتھ کھل کر تعاون کرر ہا ہے، پاکستان کو ایران سے گیس پائپ لائن بھی نہیں لینے دی جاتی۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کھلم کھلا دھمکی دی کہ وہ بلوچستان۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو اسی طرح حقوق دلوائے گا جس طرح اکہتر میں مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے تھے ا ور بنگلہ دیش بنانے میں ہر بھارتی شہری نے حصہ لیا تھا۔ یہ ساری دھمکیاں صرف اس لئے ہیں کہ پاکستان نے چین کوسی پیک کا روٹ دیا ہے اور اب سری لنکا کو دہشت گردی کا ٹارگٹ کیا گیا ہے توا سکی بڑی وجہ بھی چین کا تجارتی روٹ ہے۔
جہاں چین کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس کی تجارت کے لئے سکیورٹی کا بند و بست کون کرے۔ وہاں چین کو ایک نکتہ اور بھی زیر غور لانا چاہئے۔ یہ تلخ حقیقت ہر ایک پر واضح ہے کہ چین کا ایک تجارتی روٹ برما سے بھی گزرتا ہے اور ا س راستے میں وہ علاقہ آتا ہے جہاں روہنگیا مسلمان آباد ہیں۔ ان مسلمانوں کی جنگ آزادی کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر عالمی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے ہے کہ چین نے برمی حکومت کو کھلی چھٹی دی ہے کہ وہ اس کی تجارتی راہگزر سے ہر رکاوٹ دور کرے۔ روہنگیا مسلمان اسی کی قیمت چکا رہے ہیں اور انہیں آس پاس کاکوئی ملک پناہ دینے کو بھی تیار نہیں۔ پاکستان سے ڈاکٹرا ٓصف جاہ نے روہنگیا مہاجرین کی مدد کے لئے ایک کیمپ لگایا مگر بنگلہ حکومت نے اسے اکھاڑ دیا،۔ مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کو کہیں جائے پناہ میسر نہیں،ان کو مارنے کا سلسلہ فلسطین سے شروع ہوا، لبنان۔ اردن، مصر۔ یمن۔الجزائر ،سویڈن۔ شام ۔ عراق اور افغانستان کے بعد اب کشمیر میںمسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ کیا دنیا نے مستقبل کی تجارت مسلمانوں کی لاشوں پر استوار کرنی ہے،یہ ہے وہ سوال ہے جو دنیا ئے اسلام کو بھی سوچنا ہے ا ور غیر مسلم طاقتوں کو بھی جو دن رات تجارتی قافلوں کی جھنکار سننے کی منتظر ہیں۔
میں پانی میںمدہانی ڈالنے کا قائل نہیں۔ دہشت گردی کی سائنس نہیں جانتا اور امور تجارت سے بھی آشنا نہیں لیکن بہتر سال کی عمر میں ذہن میں کوئی سوال تو ابھرتے ہیں، وہ قارئین کے سامنے رکھ دیئے ا ور ان اداروں کے سامنے بھی جو مدارا لمہام ہیں۔ مجھے سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے سامنے سنگین خطرات نظر آ رہے ہیں اور میری رائے میں ان کا مداوا کرنا سری لنکا اور پاکستان کا کام نہیں ، چین کا ہے۔ ہاں اس کے ہمسائے ا س کا ساتھ ضرور دیں گے۔ اور دے بھی رہے ہیں ۔ آئے روز لاشے تڑپتے ہیں تو کیا یہ کم قربانیاں ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024