اب تک پاکستان کرکٹ بورڈ کے گورننگ بورڈ کے باون اجلاس ہوئے، ہر اجلاس کے بعد آئندہ اجلاس کی خبر میں ہی کچھ دلچسپی ہوتی تھی۔شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ اتنی بڑی تعداد میں بورڈ اراکین نے کسی معاملے پر مزاحمت دکھائی ہو، البتہ ہلکا پھلکا واک آؤٹ، نوک جھونک ہوتی رہتی تھی لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پانچ اراکین ایک طرف ہو جائیں اور چیئرمین کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کر دیں۔ موجودہ صورت حال پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے خاصی پریشان کن ہے۔ شاریز خان روکھڑی کو معافی دیدی گئی جبکہ دیگر تینوں اراکین اب تک اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ بورڈ کے اعلی افسران کوئٹہ ریجن کے شاہ دوست اور فاٹا ریجن میں کبیر خان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہیں قائل اور مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اس حوالے سے ابھی تک بورڈ حکام کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ دونوں اراکین کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر چکا ہے۔ انہیں سات روز کے اندر جواب جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد دونوں اراکین کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو شاریز خان روکھڑی کی طرح معذرت کریں اور "گڈ بوائے"بن جائیں یا پھر اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے قانون اور دلیل کا راستہ اختیار کریں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ کبیر خان اور شاہ دوست کے قانون اور دلیل کے راستے پر چلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔سینئر سپورٹس اینکر مرزا اقبال بیگ کہتے ہیں یہ شوکاز نوٹس بھی ڈرانے اور دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے۔ بورڈ اراکین کا کھڑے ہونا اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ کوئی بولنے والا تو آیا ہے ورنہ یہ لوگ تو چائے کافی پیتے اور دستخط کر کے گھر چلے جاتے تھے۔گورننگ بورڈ کے اجلاس میں پانچ اراکین کی قیادت کرنے والے نعمان بٹ سے کرکٹ بورڈ نے کوئی رابطہ نہیں کیا بورڈ کا فیصلہ ہے کہ ان کے ساتھ اب قانون کی زبان میں بات ہو گی۔ آئین و قانون کی بالادستی کی اس جنگ میں کون کامیاب ہوتا ہے اسکا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن عوامی سطح پر انکے اس اقدام کو سراہا گیا ہے۔ وہ ایک دلچسپ کردار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے سامنے کھڑا ہونے کے جرم میں نعمان بٹ کو سبق سکھانے کے لیے بورڈ مختلف آپشنز پر کام کر رہا ہے۔ ممکن ہے انکے ریجن کے معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو فائدہ پہنچا کر اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کی جائے جیسا کہ گجرات کے الیکشن کو روک کر کیا گیا ہے۔ ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کو مطلوبہ چیزوں کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا کی جائے، پرانے کاغذات کو صاف ستھرا کر کے قابل استعمال بنانے سمیت دیگر حربے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا شاہ دوست اور کبیر خان کو بھی اپنے ریجنز میں بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ بورڈ اپنی طاقت اپنے ہی بورڈ اراکین کو سبق سکھانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ کیا اسے کارپوریٹ کلچر کہا جاتا ہے، کیا اسے گڈ گورننس کہا جاتا ہے، کیا یہ جمہوری رویہ ہے، کیا کارپوریٹ کلچر میں بورڈ اراکین کی ذمہ داری صرف دستخط کرنے تک محدود ہوتی ہے، کیا وہاں اختلاف رائے کی اجازت نہیں ہوتی، کیا پاکستان کرکٹ سے جڑے ہزاروں افراد کے معاشی مستقبل کے لیے آواز اٹھانا جرم ہے۔ کرکٹ بورڈ اگر اپنے بورڈ اراکین کو نیچا دکھانے کے لیے وسائل استعمال کرتا ہے، سیالکوٹ، کوئٹہ اور فاٹا ریجن کو ضروری سامان کی فراہمی روکتا ہے، تو کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں، کیا یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، کیا یہ اختیارات اور حدود سے تجاوز نہیں۔ کیا کرکٹ بورڈ کے اعلی افسران کو زیب دیتا ہے کہ وہ "باس" کو خوش کرنے کے لیے نچلی سطح کی سیاست کا حصہ بنیں۔بورڈ افسران کا کام کھیل کے فروغ کے لیے اقدامات کرنا ہے یا سیاسی جوڑ توڑ !!!!
نعمان بٹ کے وکیل شیگان اعجاز کہتے ہیں کہ بورڈ ممبر اسد خان کی طرف سے یہ شکایت کہ بورڈ چیئرمین کے خلاف نازیبا زبان استعمال ہوئی ہے اور اس شکایت پر احسان مانی کا خود ہی ایک ایڈجوڈیکیٹر مقرر کر کے کیس چلانا بہت نامناسب ہے۔ ان حالات میں کہ جب وہ خود ایک پارٹی ہیں۔ یہ عمل انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
واقفان حال بتاتے ہیں کہ 53 ویں میٹنگ کے بعد کرکٹ بورڈ میں خاصی ہلچل ہے سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ بورڈ میں موجود سابق کرکٹرز کو نئے معاہدے نہ دینے کی خبریں گردش میں ہیں۔ سابق کرکٹرز کو گھر بھیجنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس معاملے میں علی ضیاء ، شفیق پاپا اور آغاز زاہد سمیت دیگر کرکٹرز کے نام شامل ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ ڈائریکٹر ڈومیسٹک ہارون رشید کے معاہدے میں لگ بھگ ایک سو اسی دن کی توسیع کر دی گئی یا یہ توسیع ہونے والی ہے اور ہارون رشید اس توسیع سے خوش نہیں ہیں۔ جنہیں فارغ کیا جا رہا ہے یا فارغ کیا جائے گا انکی کارکردگی کا جائزہ چیئرمین یا مینجنگ ڈائریکٹر لیں گے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں کی کارکردگی کا جائزہ کون لے گا، یہ کس کو جوابدہ ہیں،غلط فیصلوں اور خزانے کے ضیاع پر ان کا احتساب کون کرے گا۔دوسری طرف قانون کے شعبے میں کوئی اپنے قریبی عزیزوں کو اہم ذمہ داریاں دلوا رہا ہے تو کسی قانون دان کو یہ فکر ہے کہ اب اسکو بورڈ سے ملنے والے کیسوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ ان حالات میں قومی مفاد تو کہیں دور رہ جاتا ہے۔
اصل مسئلہ محکمانہ اور علاقائی کرکٹ کی بقا اور دس لاکھ، پندرہ لاکھ بیس لاکھ یا اس سے زیادہ تنخواہوں کا ہے۔ کیا پاکستان میں محکمانہ کرکٹ بند ہو جانی چاہیے، ایسا ہونے سے پاکستان کے نوجوان کا فائدہ ہے یا نقصان، کیا صرف چند افرد کی وجہ سے تنخواہوں کی مد میں ماہانہ لگ بھگ چالیس لاکھ کا اضافہ کیے بغیر پاکستان کرکٹ کو چلانا ممکن نہیں تھا، کیا ملک کے معاشی حالات ایسے ہیں کہ چند افسران کو ماہانہ دس بیس لاکھ تنخواہ دی جائے اور دوسری طرف کرکٹر کے پاس کھیلنے کا سامان ہی نہ ہو۔ وہ حکومت جو کفایت شعاری کا سبق دے، ملکی خزانے کو بچانے کے دعوے کرے، گاڑیاں بیچ کر پیسہ اکٹھا کرے اس دور میں چند افراد کی تنخواہ لگ بھگ چالیس لاکھ ماہانہ،کیا یہ درست اقدام ہے اسکا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں!!!!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024