خطہ کے مسلم ممالک اسلامی بلاک تشکیل دیکر ایکدوسرے کی ضرورتیں پوری کرسکتے ہیں
وزیراعظم عمران کا دورہ ایران! سرحد کے تحفظ کیلئے مشترکہ ریپڈ فورس بنانے پر اتفاق
پاکستان اور ایران نے اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہ ہونے دینے پر اتفاق کرتے ہوئے سرحد کے تحفظ کیلئے مشترکہ ریپڈ فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیر کو وزیراعظم عمران خان اور ایرانی صدر حسن روحانی کے مابین ملاقات اور وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے جس کے بعد صحت کے شعبے میں پاکستان اور ایران تعاون کے اعلامیہ پر دستخط کی تقریب ہوئی۔ بعدازاں وزیراعظم پاکستان اور ایرانی صدر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دونوں ممالک برادرانہ اور دوستانہ تعلقات مستحکم کرینگے اور باہمی تعلقات پر کسی تیسرے ملک کو اثرانداز نہیں ہونے دینگے۔ انہوں نے بتایا کہ سرحدی محافظین اور سرحد کی حفاظت کیلئے جوائنٹ ریپڈ ری ایکشن فورس کے قیام پر بھی اتفاق ہوا ہے جبکہ دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر بھی غور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ایران پاکستان کی تیل اور گیس کی ضرورت پوری کرنے کیلئے تیار ہے اور اس ضمن میں پاکستانی سرحد کے ساتھ پائپ لائن کی تعمیر کیلئے ضروری اقدامات کئے گئے ہیں۔ ایران پاکستان کیلئے بجلی کی برآمدات 10 گنا تک بڑھانے کیلئے تیار ہے۔ اسی طرح اقتصادی تعلقات کے سلسلہ میں بارٹر کمیٹی کی تشکیل پر اتفاق ہوا ہے تاکہ دونوں ممالک کی ضروریات کے پیش نظر اشیاء اور دیگر چیزوں کا تبادلہ کیا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ صدر روحانی سے ملاقات میں افغان تنازعہ کے حل پر بھی زور دیا گیا جبکہ امریکہ کی جانب سے پاسداران انقلاب اور گولان ہائٹس پر اختیار کئے گئے موقف پر بھی گفتگو ہوئی۔
عمران خان نے گزشتہ دنوں بلوچستان میں ہونیوالی دہشت گردی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات دونوں ممالک کے تعلقات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ انکے ایران آنے کا مقصد سکیورٹی معاملات پر بات کرنا تھا تاکہ دہشت گردی کے مسئلہ پر قابو پایا جاسکے۔ بی بی سی کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اس امر کا اعتراف کیا کہ ایران کے اندر ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات میں ایسے عناصر ملوث رہے ہیں جو پاکستان کی سرزمین استعمال کرکے اپنی کارروائی منظم کرتے ہیں جبکہ پاکستان کی پوری قیادت اس بات پر متفق ہے کہ پاکستان میں کسی بھی عسکری گروپ کو ایران کیخلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ اسی طرح ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایرانی سرزمین سے بھی پاکستان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ ترکی‘ ایران اور پاکستان کے مابین بہت اچھے تعلقات ہیں جنہیں مزید فروغ دینے کیلئے تینوں ممالک کے مابین ریل کا نظام قائم کرنے پر بات ہوئی ہے۔ انکے بقول وزیراعظم پاکستان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ کسی فوجی اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے جبکہ دونوں ممالک خطے میں امن و استحکام کیلئے پرعزم ہیں۔
پاکستان اور ایران پڑوسی ملک ہونے کے ناطے ہی نہیں‘ مسلم برادرہڈ کی بنیاد پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں اور مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر دوطرفہ تجارت‘ سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کی بنیاد مستحکم بنانے کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ یقیناً ان دونوں ممالک کی دفاعی ضروریات بھی ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں جبکہ ایران کی سرزمین تیل اور گیس کے ذخائر سے مالامال ہونے کے ناطے پاکستان کی توانائی کی ضروریات بھی بحسن و خوبی پوری ہو سکتی ہیں جس کیلئے ایران کی جانب سے فراخدلانہ پیشکش کی بھی جاتی رہی ہے جبکہ پاکستان اور ایران کے مابین طے پانے والے گیس پائپ لائن کے معاہدے کی بنیاد پر دونوں ممالک کے مابین توانائی کے شعبہ میں تعاون کی راہیں بھی کھلی ہوئی ہیں جس کیلئے ایران نے زیادہ وسعت نظری کا مظاہرہ کیا اور اپنے حصے کی گیس پائپ لائن کی تنصیب مکمل بھی کرلی تاہم امریکی دھمکیوں کے پیش نظر ہمارے حکمران ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاہدے کو اپریشنل کرنے سے نہ صرف ہچکچاتے رہے بلکہ انہوں نے گیس پائپ لائن بچھانے میں کسی قسم کی پیش رفت بھی نہ کی‘ اس طرح مقررہ معیاد میں پائپ لائن کی تنصیب نہ کرکے پاکستان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی جس پر اسے جرمانہ عائد ہوا مگر ایران نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف جرمانہ معاف کیا بلکہ پاکستان کے اندر بھی پائپ لائن بچھانے کیلئے تعاون کی پیشکش کی۔ اسکے باوجود پاکستان امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیوں کے ہی زیراثر رہا اور اس طرح پاکستان ایران سے سستی گیس کے حصول کے نادر موقع سے ابھی تک استفادہ نہیں کرسکا اور اسکے برعکس اس نے قطر سے مہنگی ایل این جی حاصل کرکے قومی خزانہ پر مزید بوجھ ڈالا۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ ایران کے ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کے ساتھ بھی دوستانہ مراسم استوار ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی تعاون کے معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ اسی تناظر میں ایران نے بھارت کو بھی گیس پائپ لائن کے منصوبے میں شامل کیا تھا مگر بھارتی بدنیتی جلد ہی سامنے آگئی اور پاکستان نے بھارت کی موجودگی میں گیس پائپ لائن کے اس منصوبہ میں شریک ہونے سے معذرت کی تو ایران نے اس معاہدے کیلئے پاکستان کو ترجیح دی اور پھر بھارت کو نکال کر دونوں ممالک نے باہمی معاہدہ کیا مگر بھارت نے ایران کو پاکستان سے برگشتہ کرنے کی سازشوں میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس مقصد کے تحت بھارت نے پاکستان چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کیلئے ایران کو چاہ بہار پورٹ کی تعمیر میں معاونت کی پیشکش کی جو ایران نے قبول کرلی مگر گوادر پورٹ کو سبوتاژ کرنے کی بھارتی سازش کامیاب نہیں ہونے دی اور چاہ بہار پورٹ کو گوادر پورٹ کے ساتھ لنک کرنے کی پاکستان کی پیشکش قبول کرلی۔ بھارت نے اپنے سازشی ذہن کے مطابق گوار پورٹ کیخلاف سازشیں جاری رکھیں اور بلوچستان میں کلبھوشن کی نگرانی میں جاسوسی نیٹ ورک قائم کرکے اس کا ربط چاہ بہار تک استوار کردیا جس کے باعث اسے ایران کی سرزمین بھی پاکستان کی سلامتی کیخلاف استعمال کرنے کی سہولت مل گئی۔ کلبھوشن اپنی گرفتاری کے وقت ایران کی چاہ بہار پورٹ سے ہی بلوچستان میں داخل ہوا تھا جس کی گرفتاری کی بنیاد پر پاکستان اور ایران کے مابین بعض غلط فہمیاں اور کشیدگی بھی پیدا ہوئی کیونکہ یہ گرفتاری ایرانی صدر کے دورۂ اسلام آباد کے موقع پر عمل میں آئی تھی تاہم دونوں ممالک کی قیادتوں نے دانشمندی کے ساتھ دوطرفہ معاملات طے کرکے غلط فہمیاں دور کرلیں۔ بعدازاں پاکستان ایران سرحد پر دونوں جانب دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں تو بھارت کو اس دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر پاکستان اور ایران کے مابین غلط فہمیاں پروان چڑھانے کا موقع مل گیا۔ اسی دوران پاسداران ایران کی جانب سے پاکستان کے اندر گھس کر فائرنگ کی گئی جس سے یقیناً غلط فہمیاں شکررنجی میں تبدیل ہونے کا امکان تھا تاہم دونوں ممالک کی قیادتوں نے اس معاملہ میں بھی فہم و بصیرت سے کام لے کر دوطرفہ کشیدگی کو پختہ نہیں ہونے دیا۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب بھی ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ برادرانہ مراسم میں بندھے ہوئے ہیں اور حجاز مقدس کے ناطے پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ عقیدت کا رشتہ بھی استوار ہے جبکہ ایران اور سعودی عرب کی ایک دوسرے کے ساتھ مخاصمت ہے جسے یمن جنگ میں مزید فروغ حاصل ہوا ہے۔ چنانچہ بھارت نے پاک سعودی برادرانہ تعلقات کے ناطے بھی ایران اور پاکستان کے مابین فاصلے پیدا کرنے کی سازش کی تاہم پاکستان کی بہتر خارجہ پالیسی کی بنیاد پر اسکے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا جبکہ پاکستان نے برادر سعودی عرب اور ایران میں یمن جنگ کے حوالے سے پیدا ہونیوالی غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے کردار ادا کرنے کی بھی کوشش کی۔ اسکے برعکس بھارت کی حتیٰ الوسع یہی کوشش ہے کہ وہ پاکستان پر دہشت گردوں کا سرپرست ہونے کا لیبل لگانے میں کامیابی حاصل کرلے۔ اسی بنیاد پر وہ ہر دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا اور اسے موردالزام ٹھہراتا ہے چنانچہ وہ ممبئی حملوں سے پلوامہ حملے تک پاکستان کیخلاف یہی سازشیں آگے بڑھاتا نظر آیا ہے جس میں اسکی تان یہیں پر ٹوٹتی ہے کہ دہشت گرد پاکستان کی سرزمین استعمال کرکے اسکی سرپرستی میں ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ اس پراپیگنڈے کی بنیاد پر افغانستان بھی پاکستان کے حوالے سے بھارتی زبان ہی بولتا ہے اور امریکہ کو بھی بھارتی پراپیگنڈا کی بنیاد پر ہی پاکستان کو زیرباد کرنے کی سہولت ملی ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ بھارت خود پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغانستان اور ایران کی سرزمین استعمال کرتا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے جب اپنے ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں کا حوالہ دے کر اس میں پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کے ملوث ہونے کی بات کی تو انکی اس بات کو ملک سے دشمنی گردانا گیا اور پی ٹی آئی کی قیادت نے بھی انکے خوب لتے لئے جبکہ اب وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورۂ ایران کے موقع پر ایرانی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خود بھی یہ بات کہہ دی کہ ایران میں دہشت گردی کیلئے پاکستان کی سرزمین استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس کا نہ صرف حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس امر کا اظہار ملکی اور قومی مفادات سے بھی مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ اس سے بھارت کو پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا لیبل لگانے کی مزید سہولت مل سکتی ہے۔ ملک کے چیف ایگزیکٹو کو اپنے بیرونی دوروں کے موقع پر ملکی اور قومی مفادات کی بہرصورت پاسداری کرنی چاہیے اور ایسی کوئی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے ہمارے دشمن کو ہماری جانب انگلی اٹھانے کا موقع ملتا ہو۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ ایران سے دونوں ممالک کے مابین روابط بلاشبہ مزید مستحکم ہونگے اور باہمی اشتراک عمل سے دہشت گردی کے تدارک کا میکنزم وضع کرکے اس خطہ کو دہشت گردی کے ناسور سے بھی مستقل نجات دلانا ممکن ہو جائیگا جبکہ وزیراعظم کا دورۂ ایران اس خطے میں اسلامی بلاک کی تشکیل کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔