سیاست میں مفاہمت اور تحمل کی ضرورت
پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے دوران حکومتی ارکان کی نعرے بازی اور بعد ازاں اپوزیشن کے شدید احتجاج کی نذر ہو گیا۔بلاول نے حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا ہے کہ مجھے تقریر کرنے سے روکا گیا تو وزیراعظم کو ایوان میں گھسنے نہیں دیں گے۔انکی دھواں دھار تقریر کا جواب دینے کیلئے وفاقی وزیر عمر ایوب کھڑے ہوئے تو پیپلز پارٹی کے ارکان نے حکومتی بنچوں کا گھیرائو کر لیااور ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑ کر وزراء پر پھینک دیں۔
ایوان کے ماحول کو بہتر رکھنا حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کی یکساں کی ذمہ داری ہے تاہم حکومتی ارکان کو خصوصی طور پر زیادہ تحمل اور برداشت سے کام لینا چاہئے۔ بلاول جو بھی کہہ رہے تھے اس کو بغور سن کر اپنی باری پر جواب دیا جا سکتا تھا۔ بلاول کی تقریر میں اگر کچھ غیر پارلیمانی الفاظ استعمال ہوئے تو وہ سپیکر نے حذف کرا دئیے۔ بلاول کو احساس ہونا چاہئے کہ وہ وزیراعظم کے بارے میں نازیبا الفاظ اور دھمکی آمیززبان استعمال کریں گے تو دوسری طرف سے بھی پھول نہیں برسیں گے۔ حکومتی ارکان کو بھی اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے اسی لہجے میں جواب کی توقع رکھنی چاہئے۔ ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں جارحانہ کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہر اپوزیشن حزبِ اقتدار کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کرتی ہے تاہم قومی ایشوزپر حکومت اور اپوزیشن یکجا ہو جاتی ہیں مگر بھارت کے پاکستان پر پلوامہ ڈرامہ حملے کے بعد بلاول مسلسل کابینہ میں شدت پسندوں کے حامیوں کی بات کرتے رہے اُن دنوں ایف اے ٹی ایف کی ٹیم بھی پاکستان میں تھی۔ وہ اب بھی حکومت پر شدت پسندوں کے خلاف سخت کارروائی نہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں، ایسے بیانات دشمن کو اچھالنے اور اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اپوزیشن جارحانہ کردار بیشک ادا کرے مگر ایک حد میں رہتے ہوئے۔ ہوش سے زیادہ جوش دکھانے سے تیسری قوت کو موقع مل سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اس حوالے سے دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ تلخ تجربات کاسامنا رہا ہے ، جمہوریت بہرحال چلتی رہنی چاہئے۔