بدھ ‘ 18 ؍ شعبان المعظم ‘ 1440ھ‘ 24؍ اپریل 2019ء
وزیراعظم نے جرمنی اور جاپان کو پڑوسی قرار دیدیا
خان صاحب اس وقت ملک کے وزیراعظم ہیں۔ ان کو وہی حیثیت حاصل ہے جو جنگل کے بادشاہ شیر کو حاصل ہوتی ہے۔ وہ جو جی چاہے کریں کون روک سکتا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ان سے پہلے جو شیر جنگل کا بادشاہ تھا وہ آجکل صیاد کی قید میں ہے۔ جس نے اسے پنجرے میں بند کر کے نمائش کے لیے رکھ دیا ہے ۔ بہرکیف بات ہو رہی تھی خان صاحب کی۔ ان کی طرف سے اگر تاریخ یا جغرافیہ میں کوئی کمی بیشی یا غلطی ہو جائے تو وہ قابلِ گرفت نہیں کیونکہ وہ بنیادی طور پر کرکٹر ہیں کھلاڑی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ جو بچہ کھیلوں میں دلچسپی لیتا ہے اس کی پڑھائی پر توجہ کم اور کھیل پر زیادہ ہوتی ہے ۔ صرف اچھا کھلاڑی ہونے کی وجہ سے اسے سکول اور کالج میں پھر یونیورسٹی میں بھی ہر امتحان میں پاس کیا جاتا ہے تاکہ کالج سکول اور یونیورسٹی کی شان بنی رہے۔ اب گزشتہ روز ایران میں غالباً خان صاحب جرمنی کی یا جاپان کی ترقی کی تعریف کرنا چاہ رہے تھے تو روانی میں انہوں نے جرمنی اورجاپان دونوں کو پڑوسی ملک بنا دیا جنہوں نے جنگ و جدال تباہی و بربادی کے بعد صنعتی ترقی کی معراج حاصل کی ہے۔ اب یہ ایسی کوئی تاریخی غلطی نہیں کہ جس سے کسی کا جغرافیہ تبدیل ہو گیا ہو۔ ویسے بھی جرمنی اور جاپان نے حقیقت میں جنگ کی تباہی کے بعد ہی ترقی کی معراج کو چھوا ہے۔ اب چاہے یہ ہمسائے ہوں نہ ہوں دونوں کی رام کہانی ایک سی ہے۔ ہمیں بھی ان دونوں سے سبق سیکھنا چاہئے کہ کس طرح انہوں نے ماضی کو فراموش کرکے یہ مقام حاصل کیا۔ مگر ہم ہیں کہ ابھی تک ماضی کے ہی اسیر نظر آتے ہیں
٭٭٭٭
خیبر پی کے اسمبلی ارکان کاتنخواہوں میں مزید اضافے کا مطالبہ
نہ چھیڑ نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
غالب نے جس دور میں یہ شعر کہا ہو گا، اس وقت کے حالات بھی شاید ہمارے موجودہ حالات جیسے ہی ہوں گے۔ جب حکمران طبقہ عیاشیوں میں مشغول تھااور غالب جیسے خستہ تن کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں تھا۔ اوپر سے نوبت یہ آن پہنچی تھی کہ قبلہ کو اس فاقہ مستی میں بھی قرضہ لے کر مئے پینے کی عادت نے تھانے کچہریوں کی راہ دکھا دی تھی۔ انہی حالات پر انہوں نے بادبہاری کو اپنا راستہ ناپنے کا کہا تھا۔ اس وقت عوام الناس بھی غالب خستہ جیسے حالات سے دوچار ہیں اور خیبر پی کے اسمبلی کے ارکان والا تبار جو اس قرضوں کے مارے ملک میں پہلے ہی بھاری بھرکم تنخوائیں بٹور رہے ہیں۔ وہ اپنی تنخواہوں میں مزید اضافہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خدارا بس کریں بہت ہو چکا۔ عوام کے صبر و ضبط کا مزید امتحان نہ لیں۔ آپ لوگ عوام کی حالت بدلنے آئے ہیں یا اپنی۔ آپ لوگ کیوں غریبوں کے زخموں پہ نمک چھڑک رہے ہیں۔ لوگ خود ہی اندازہ کر لیں کہ لاکھوں روپے تنخواہیں وصول کرنے والے یہ لوگ اگر گرانی اور مہنگائی کے ہاتھوں بلک رہے ہیں تو چند ہزار روپے تنخواہ لینے والوں کی حالت کیا ہو گی۔ یہ بااثر ارکان اسمبلی میں انجمن ستائش باہمی کے تحت حکومت کے ہوں یا اپوزیشن کے۔ مل کو تنخواہ بڑھانے کا بل منظور کر لیں گے۔ مگر یہ جو 20 کروڑ عوام ہیں کیا ان کے ریلیف کے لیے بھی حکومت اور اپوزیشن مل کر کوئی ایسا پیکج دے سکتی ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 70 فیصد پاکستانیوں کو بھی راحت کا احساس ہو۔
٭٭٭٭
یکم مئی سے عوام پر پھر پٹرول بم گرانے کی تیاریاں
پے درپے صدمات اور حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنے والے عوام پر ’’اک ستم اور میری جاں ابھی جاں باقی ہے‘‘ کے مصداق ایک اور خودکش حملے کی تیاری کی خبر پڑھ کر سمجھ نہیں آتا کہ اظہار افسوس کریں یا یہ غم بھی قہقہوں میں اڑا کر ہم کو بھی غم نے مارا تم کو بھی غم نے مارا اس غم کو مار ڈالو کہہ کر اپنے اعصاب کے مضبوط ہونے کا ثبوت دیں۔ پٹرول ، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں جس طرح ماہانہ اضافہ ہوتا ہے ، اسے تو عوام نے تقدیر کا لکھا سمجھ لیا ہے۔ جبھی تو یہ سب سہہ کر بھی کہیں سے کوئی صدا سنائی نہیں دیتی اگر یہی صبر و ضبط کی کیفیت برقرار رہی تو بہت جلد پوری قوم صوفی ازم کی اصطلاح کے مطابق ولی بن جائے گی جو ہر حال میں راضی برضا رہنے کو معراج سمجھتے ہیں۔ یہ دنیا انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے تو ہمیں صوفی سے زیادہ انسان بننے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو تو موجودہ حکومت نے سات آٹھ ماہ میں ہی زرداری دور کی فیوض و برکات کی یاد دلا دی ہے جب لٹر پٹرول 100 روپے سے زیادہ میں ملتا تھا اور موبائل کارڈ پر 100 کے لوڈ پر صرف 60 روپے ملتے تھے۔ آج بھی وہی وقت پھر لوٹ آیا ہے اس پر زرداری صاحب کو خان صاحب کا مشکور ہونا چاہئے۔ ویسے بھی اب خان صاحب اور زرداری صاحب کے دور میں کیا فرق رہ گیا ہے۔ دونوں کے دور میں عوام کا ہی تیل نکالا جارہا ہے۔
٭٭٭٭
وریندر سہواگ کی بات پر صرف ہنس ہی سکتا ہوں۔ محمد حفیظ
بھارتی حکمران ہوں یاکھلاڑی سب کے دل و دماغ میں پاکستان کے خلاف ہر وقت زہر بھرا رہتا ہے۔ نریندر مودی سے لے کر وریندر سہواگ تک جب بھی پاکستان کے بارے میں زبان کھولتے ہیں وہاں ہے سے زہر ہی اگلتے ہیں۔ ورلڈ کپ کے میچ ابھی شروع نہیں ہوئے، سب جانتے ہیں کہ ان میچوں میں جب بھی پاکستان اور بھارت کا ٹاکرا ہوتا ہے۔ غضب کا رن پڑتا ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی والے ان دونوں ممالک کے عوام کی نظریں کھیل پر ٹکی ہوئی ہیں۔ عام لوگوں پر مقابلے کا جنون سوار ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے دیگر ممالک بھی کھیل میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہوتے ہیں۔ مگر جنگی جنوں کہیں نظر نہیں آتا۔ بھارتی کھلاڑی سہواگ نے جس طرح پاکستان اور بھارت کے میچ کو جنگ سے تشبیہ دی ہے وہ اس کی ذہنی پستی کا ثبوت ہے۔ کھیل کے میدان میں ہار جیت ہوتی ہے۔ دو ٹیموں میں سے ایک ہی جیت پاتی ہے۔ اب اگر کوئی ناقص العقل کھلاڑی اسے جنگ قرار دے تو اس پر واقعی صرف ہنسا جا سکتا ہے یا اس کی عقل کا ماتم کیا جا سکتا ہے۔ کھیل کے کھلاڑی تو امن کے سفیر ہوتے ہیں ان کو یہی کام شوبھا دیتا ہے۔ سہواگ امن کے سفیر کی بجائے جنگ کا سفیر بننے کی کوشش نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭