میاں نواز شریف کے دور حکومت کے آخری دو سالوں کے دوران جو سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا تھا وہ ابھی تک ختم نہیں ہو سکا۔ سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد سیاسی عدم استحکام ختم ہو جائے گا اور نئی منتخب حکومت پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر دے گی۔ پارلیمانی نظام کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نظام نے ہمیشہ عدم استحکام ہی پیدا کیا ہے اور مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔ پارلیمانی نظام کے مفاداتئے تاریخ کے اس سچ کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ کاش پارلیمانی نظام کے حامی اس نظام کی بیلنس شیٹ عوام کے سامنے رکھ سکیں کہ اس نظام کی وجہ سے ہم نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے تو ان کی شاید آنکھیں کھل جائیں۔ سیاسی عدم استحکام کے سائے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔اس عدم استحکام کی ذمہ داری پاکستان کے سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے جن میں حکومتی سیاستدان بھی شامل ہیں۔ بھارت کے وزیراعظم مودی اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کو کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں اور دعوے کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو معاشی طور پر دیوالیہ کر کے رکھ دیں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بدستور کشیدہ ہیں ۔
گزشتہ دنوں بلوچستان میں دہشت گردی کے المناک واقعہ کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو ایران کا ہنگامی دورہ کرنا پڑا۔ سکیورٹی کے اداروں کو ٹھوس شواہد ملے ہیں کہ بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے لیے ایران کی سرزمین کو استعمال کیا گیا ہے۔
پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے ادارے پاک فوج کے خلاف مذموم پروپیگنڈے میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے جس میں پاکستان دشمن ایجنسیاں ملوث ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے اندر سیاسی استحکام قومی سلامتی اور آزادی کے لیے بے حد ضروری ہو چکا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں نازک صورتحال کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ سیاستدان اپنے لب و لہجے سے تلخیاں ختم کرنے پر تیار نہیں ہو رہے بلکہ شدت انگیز زبان استعمال کی جا رہی ہے۔
جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج پر تنقید کی ہے اور سخت الفاظ استعمال کئے ہیں جنہیں ٹی وی چینل پر سنا گیا۔ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی جانب سے پاک فوج کی کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا افسوسناک اقدام ہے۔ جس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ پی پی پی کے مرکزی رہنما بلاول بھٹو زرداری بھی تند و تیز بیانات جاری کررہے ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کے راہنما مصلحت کے تحت خاموش ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے قومی بجٹ سے چند ہفتے پہلے اپنے وزیر خزانہ اور دوسرے کئی وفاقی وزیروں کو تبدیل کر کے نہ صرف تحریک انصاف کے اندر بلکہ پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔
وزیراعظم کو اپنی کابینہ تبدیل کرنے کا اختیار ہوتا ہے مگر صرف آٹھ ماہ کے بعد وزیروں کو تبدیل کر دینا دانشمندانہ اقدام نہیں ہے جس کی ذمہ داری کپتان کو بھی قبول کرنی چاہیے۔ کپتان نے ایسے وزیروں کا انتخاب کیوں کیا جن کو انہیں صرف آٹھ ماہ کے بعد ہی تبدیل کرنا پڑا۔ وزیراعظم کی تبدیلیوں کے بارے میں بھی سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کچھ ایسے فیصلے بھی کیے ہیں جن کو میرٹ کے مطابق قرار نہیں دیا جا رہا۔
جب ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو مختلف افواہیں جنم لیتی ہیں گزشتہ ایک ماہ کے دوران پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے طاقتور ادارے صدارتی نظام کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچ بچار کر رہے ہیں کیونکہ پارلیمانی نظام سیاسی استحکام پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے اور جب تک سیاسی استحکام پیدا نہ ہو پاکستان میں معاشی استحکام بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔
اسلام آباد میں یہ افواہ بھی زوروں پر ہے کہ عمران خان بڑی شدت اور سنجیدگی کے ساتھ اسمبلیوں کو توڑنے کے آپشن پر غور کر رہے ہیں۔ کیا یہ پارلیمانی جمہوری سیاسی نظام کی کمزوری نہیں ہے۔ یہ نظام پاکستان کو ایک بھی اعلیٰ معیار کا وفاقی وزیر خزانہ نہیں دے سکا۔ عمران خان اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ موجودہ نظام میں وہ اپنے انقلابی ایجنڈے پر عمل درآمد نہیں کر سکتے، وہ چونکہ دیانت دار اور پرعزم سیاسی لیڈر ہیں، لہٰذا ان کی آخری خواہش یہ ہے کہ وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں ، تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے انہیں اپنے انقلابی انتخابی ایجنڈے پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ ایک افواہ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو یہ مشورہ بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ آئین کا آپشن استعمال کرتے ہوئے آئینی ریفرنڈم کرائیں اور نظام کی تبدیلی کے لیے پاکستان کے عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں۔
ریفرنڈم کا مشورہ دینے والوں کو یقین ہے کہ پاکستان کے عوام چونکہ موجودہ پارلیمانی نظام سے تنگ آ چکے ہیں، لہٰذا عوام کی اکثریت نئے سیاسی نظام کے حق میں ووٹ دے گی تاکہ موجودہ سیاسی عدم استحکام ختم ہو سکے اور عمران خان کو یہ موقع مل سکے کہ وہ آزادی کے ساتھ فیصلے کر کے پاکستان میں معاشی استحکام لا سکیں جس کے آئندہ دو تین سال کے اندر امکانات موجود ہیں۔
سیاسی عدم استحکام کی موجودگی میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، ان ہاؤس تبدیلی بھی ایک آئینی آپشن ہے جس کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کی خبریں بے بنیاد نہیں ہیں۔ پنجاب پاکستان کا بڑا صوبہ ہے جس میں عدم استحکام ملکی سلامتی کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ چوہدری نثار علی خان چونکہ تجربہ کار نیک نیت اور دلیر سیاستدان ہیں۔ اس لئے ان کے بارے میں یہ سوچا جا رہا ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کی طرح بہترین ایڈمنسٹریٹر ثابت ہو سکتے ہیں۔ البتہ اس آپشن کے راستے میں بہت سے مشکل مقامات بھی آتے ہیں۔
پاکستان معاشی طور پر بھی شدید مشکلات کا شکار ہے اور ابھی تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکا یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے وزیر خزانہ اسد عمر کو تبدیل کر کے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وفاقی وزیر خزانہ نام زد کیا گیا ہے اور ان سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان کو معاشی استحکام دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر پاکستان کی معیشت مزید بگڑ گئی تو آئین میں معاشی ایمرجنسی کا آپشن بھی موجود ہے جو آج تک آزمایا نہیں گیا مگر موجودہ حالات کا جبر اس آئینی آپشن کو استعمال کرنے پر بھی مجبور کر سکتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو قومی بجٹ منظور کرنے کے انتہائی مشکل مرحلے کا سامنا ہے، پاکستان کے عوام مہنگائی کی وجہ سے سخت بیزار ہیں، ان حالات میں اگر عوام دوست بجٹ پیش نہ کیا گیا تو عوام کی مشکلات میں اس قدر اضافہ ہو جائے گا جو عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو گا اور وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے اصول پر سڑکوں پر سراپا احتجاج ہوں گے۔ پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں بھی بے چینی کے ساتھ اس مرحلے کا انتظار کر رہی ہیں۔
عمران خان اپنے پرانے وفادار ساتھیوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور وہ ایسے افراد کے نرغے میں آ چکے ہیں جن کی عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں ہے۔ تحریک انصاف میں غصہ انتشار اور مایوسی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ گروپنگ تو پہلے ہی پارٹی کے اندر موجود تھی مگر اب اس میں شدت آتی جا رہی ہے جو حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور اس کا ووٹ بینک بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ عمران خان آل پاکستان پارٹی ورکرز کنونشن طلب کریں اور پارٹی کے پرانے کارکنوں کو اعتماد میں لے کر ان سے مشاورت کریں تاکہ وہ اپنی حکومت اور پارٹی دونوں کو بچا سکیں۔
افسوس انہوں نے اپنے آپ کو خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں تک محدود کرلیا ہے اور پارٹی سے ان کا رابطہ ہی ختم ہو چکا ہے۔ یہ رویہ خود ان کی وزارت عظمیٰ کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے ہمیشہ پاکستان کے غریب عوام ہی متاثر ہوتے ہیں، ان کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں رہتی جبکہ حکمران اشرافیہ کے پاس اللہ کے دیئے اور بندوں سے لیے اس قدر اثاثے موجود ہوتے ہیں کہ وہ ہر صورت حال کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، ان کی عیش و عشرت پر کوئی فرق نھیں پڑتا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024