سابق صدر پرویز مشرف اپنے عہدے سے سبکدوش ہوکر پاکستان سے جا رہے تھے تو انہوں نے ایک جملہ کہا تھا کہ میرے جانے کے بعد مجھے یاد کرو گے اس وقت میں نے بحیثیت سیاسی کارکن پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لئے اپنا بھر پور رول ادا کیا ہم ذہنی طور پر صدر پرویز مشرف کو برداشت نہیں کرتے تھے گزرنے والا ہر لمحہ تاریخ بنتا جا رہا ہے آج انکے کہے ہوئے وہی الفاظ (کہ مجھے جانے کے بعد یاد کرو گے)تاریخ کا حصہ بن گئے اس وقت پاکستان کے اندر خوشحالی تھی پاکستان کی معیشت مضبوط ہورہی تھی جس شخص نے کبھی ہزاروں روپے بھی نہ گنے ہو ںوہ بھی کروڑوں کی بات کر تا تھا پاکستان میں پیسے کی ریل پیل تھی لوگ جو چھوٹے چھوٹے کاموں سے منسلک تھے وہ بھی کروڑ پتی بن گئے تھے مگر چونکہ پاکستانیوں کو تو جمہوریت چاہئے ناں…
بحیثیت سیاسی کارکن میںکبھی سوچتا ضرور ہوں کہ جہاں دو اور دو چار روٹیاں گنی جاتی ہوں جس ملک میں نواب اور جاگیر دار وڈیرے لائنوں میں لگا کر جہاں چاہیں غریب عوام سے ووٹ ڈلوا لیں اور دولت مند ووٹ کا تقدس خوبصورت سازشوں کا جال بن کر شریف اور قوم کا خادم ہونے کا جھانسہ دے کر اس ملک کی اسمبلیوں میں پہنچ کر اپنی جائز ناجائز خواہشات کی تکمیل کے ساتھ اس ملک کو اپنی ذاتی انڈسڑی کی طرح چلائیں غریب روٹی کے لئے ترستا ہو حکمرانوں کی تجوریا ں بھری جارہی ہوں ظالم کو پوچھنے والا کوئی نہ ہو قوم خود کشی کر رہی ہو تو مجھے یہ پوچھنے کی اجازت دیں کیا اس کو جمہوریت کہتے ہیں کہ جہاں لینڈ مافیا کریمنل کرپٹ لوگ نام نہاد لیڈروں سے دولت کے بل بوتے پر تعلقات استوار کر کے اسمبلیوں میں پہنچ جائیں تو پھر مجھے کہنے دیں جناب
تیرے اس دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا نہیں
ایک پاکستانی کے طور پر ہمیشہ دعا کر تا کہ اللہ کریم پاکستان کو ایک سٹیٹس مین عطا فرما۔ اللہ کریم نے بالآخر ہماری دعائیں سنیں اور عمران خان کی صورت میں پاکستان کو ایک سٹیٹس مین عطا کر دیا جو وزیر اعظم بننے سے پہلے مدینہ منورہ جاتا ہے تو ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پائوں میں جوتا نہیں پہنتا اور بطور وزیر اعظم بھی اسی عمل کو دُہراتا ہے تو پھر میں کہہ سکتا ہوں کہ اللہ اور انکے حبیب ﷺان پر راضی ہوگئے مگر دولت اور اقتدار کے دلدادہ سیاست دانوں کو یہ ہضم نہیں ہو رہا اور رات دن سازشوں کے جال بننے میں لگے ہوئے ہیں۔ عجیب بات ہے ایک دوسرے کو غدار وطن ،لٹیر ا،چور ، ڈاکو، قاتل اور تو اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے اعلانات کرنے والے اب انکی تعریفوں کے پل باندھنے میں مصروف ہیں اور ہر صورت ایک ایسے لیڈر جو پاکستان کو غیر ملکی آقائوں اور خاص طورپر سابقہ حکمرانوں کی لوٹ مار سے آزاد کر کے پاکستان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتا ہے اس کے خلاف سازشوں کے جال بُن رہے ہیں مگر میں سمجھ سکتا ہوں کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ کوئی حکمران آیا ہے جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست (ریاست مدینہ بنانے کا تصور پیش کیا ہے ) جس پر نہ تو کوئی کرپشن کا الزام ہے نہ انکا کوئی بیٹا انکے ساتھ امور مملکت چلاتا ہے ایک ایسا بہادر انسان جو سب سے پہلے اسلام اور پاکستان کی بات کرتا ہے اپنی بات شروع کرنے سے پہلے ہمیشہ اِیاَکَ نَعبُد واِیاَکَ نَستَعیِن کہتا ہے جس نے اپنی اولاد کو اپنا سیاسی جانشین نہیں بنایا جس کا پہلا اور آخری مسئلہ پاکستان ہے جو اپنی دوستیاںاور ہر رشتہ پاکستان پر قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے جس کی اک جھلک پاکستانی قوم نے ابھی دیکھی ہے کہ اپنے دیرینہ ساتھیوں پر پاکستان کو ترجیح دی ہے۔ بہت سی وزاتوں کے قلمدان تبدیل کرتے وقت پاکستان کے بہترین مفاد کو ملحوظ خاطر رکھا ہے او ر اس چیز کی پروا نہیں کی، اسکی کیا قیمت ادا کرنی پڑسکتی ہے ۔…؎
آتا ہے جوطوفاں آنے دے
کشتی کا خدا خود حافظ ہے
ممکن ہے انہیں موجوں میں کہیں
بہتا ہوا ساحل آجائے
جناب وزیر اعظم کی نئی ٹیم ہیں کئی قابل لوگ شامل ہوئے ہیں۔ نئے آنے والوں میں محترمہ فردوس عاشق اعوان کے بارے میں کہہ سکتا ہوں وہ وزارت اطلاعات جس کا انہیں پہلے ہی تجربہ ہے انتہائی اچھے طریقے سے چلانے کی صلاحیت رکھتی ہیںاس وقت ہمیں سب سے زیادہ اپنی امیج بلڈنگ کی ضرورت ہے ہمیں بحیثیت قوم دنیا میں کرپٹ نیشن کے طور پے اسٹیبلش کرنے کی سازش کی گئی جبکہ پاکستانی قوم انتہائی Loving & Tallented Nationہے بحیثیت مسلم ہمیں دہشت گرد کے طور پہ متعارف کروایا گیا حالانکہ ہم خود دہشت گردی کا شکار ہوئے ۔اب اپنے کردار کے ساتھ اپنے اوپر لگے ہوئے داغ دھونے کا وقت آگیا ہے ۔ پاکستان میں پرویز مشرف کالا باغ ڈیم بنا سکتا تھا کیوں نہیں بنا یا یہ ایک سوالیہ نشا ن ہے ۔
ان کے بعد عمران خان صاحب ایک ایسے لیڈر ہیںوہ کالا باغ ڈیم جو کافی حد تک مکمل ہوچکا ہے اسکو بنانے کی صلاحیت اور جرات رکھتے ہیں ہمیں جینے کے لئے ڈیم ضروری ہیں جو لوگ انکی مخالفت کرتے ہیں وہ شائد کسی اور کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کام کر رہے ہوں ۔ عمران خان کو ایسا پاکستا ن ملا جو قرض کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا اور ایک ایسا پاکستان جس میں بسنے والے کچھ اپنے غیروں کی زبان بولتے ہیں۔جہاز جب ٹیک آف کرتا ہے تو ائیر پاکٹس آتی ہیں مگر بعد ازاں فلائٹ Smoothہو جاتی ہے۔ عمران خان کے ساتھ جو جماعتیں کھڑی ہیں وہ مضبوطی کے ساتھ ساتھ پاکستان کا جھنڈا تھامے ہوئے ہیں اور عمران خان کے وژن کے مطابق پاکستان کو اندرونی و بیرونی مسائل سے نکال کر قائد اور اقبال کا پاکستان بنانے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیںان میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی کے بڑے معتبر نام ہیں ہم نے انکے ساتھ دوستی اور سیاسی مخالفت کر کے دیکھی ہے یہ دوست بھی اچھے ہیں اور سیاسی مخالفت میں بھی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑتے۔ اپنے دوستوں کے لئے آخری حد تک جاتے ہیں میں نے آج تک انکے پاس سے کسی کو مایوس لوٹتا ہوا نہیں دیکھا جب ایسے لوگ کسی کے ساتھ ہم رکاب ہوں تو پھر تقویت کا باعث ہوتے ہیں۔ جناب خان صاحب! مونس الٰہی یا سالک چوہدری کی وزات کو ISSUEنہ بننے دینا ابھی شاید کچھ اور سخت فیصلے کرنے پڑیں گے پنجاب کے اندر توجہ کی انتہائی ضرورت ہے۔ ابھی بھی مسلم لیگ ن کے کرپٹ MNAپی ٹی آئی حکومت میں سیٹیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ بحیثیت پاکستانی عمران خان کی ٹیم اور ساتھیوںکو کہتا ہوں کہ اپنا رول ادا کر کے اپنے آپ کو امر کر جائیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھ مضبوط کریں۔ اس سے پاکستان مضبو ط ہوگا اور یہ شخص دنیا کے اندر پاکستان اور پاکستانی قوم کو منفرد ملک اور قوم کے طور پر ابھارے گا انشاء اللہ ۔
اگرآپ نے پاکستان کی محبت پر اپنی ذاتی انا کو فوقیت دی تو یہ پارٹی ،پاکستان اور خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان جو ٹیڑھی راہوں کا سیدھا مسافر ہے اسکے لئے اچھا نہیں ہوگا ۔ تو مجھے کہنے دیں…؎
خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہونا چاہئے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہیے
اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم
جگنو ئوں کو راستہ تو یاد ہونا چاہیے
خواہشوں کو خوبصورت شکل دینے کے لئے
خواہشوں کی قید سے آزاد ہونا چاہیے
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024