طالبان نے کہاکہ یہ مذاکرات ہورہے ہیں یا ’جَنج‘(بارات) آرہی ہے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کے بعد معاہدے پر دستخط طالبان کے بجائے افغان انتظامیہ اور امریکی کریں جس طرح ویتنام میں ہوچی منہ اور کٹھ پتلی انتظامیہ کے درمیان ہوئے تھے۔افغانستان میں امن کے قیام کا ایک اور موقع ضائع ہوگیا۔ اس کے ذمے دار طالبان نہیں بلکہ ڈاکٹر اشرف غنی ہیں جن کی عاقبت نااندیشی اور حساس واہم مذاکرات کو دعوت ولیمہ میں بدلنے کے لطیفے کی شکل دے دی۔ طالبان نے نہایت اعلیٰ سفارتکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام صورتحال کو نہ صرف واضح کیا بلکہ خود قطر حکومت کے اس مؤقف کو پوری طرح بیان کیا کہ وہ 3 سو افراد کے لشکر کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔طالبان نے مذاکرات کے لئے 10 رکنی متوازن وفد میدان میں اتارا جبکہ کابل انتظامیہ نے 350 مذاکرات کار نامزد کئے تھے جس میں 50 خواتین شامل تھیں۔
شیر محمد عباس ستانگزئی لوگر سے تعلق رکھتے ہیں،وہ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ سمجھے جاتے ہیں۔ملاستانگزئی کالج تک افغانستان میں پڑھے بعدازاں 70 کی دہائی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفے پر بھارت کی ڈیرہ دون فوجی اکیڈیمی سے فوجی امور میں گریجویشن کی۔یہ دلچسپ حقیقت ہے شیر محمد عباس ستانگزئی اور موجودہ کٹھ پتلی صدر اشرف غنی مایہ ناز امریکی کولمبیا یونیورسٹی ہم سبق اور ہم جماعت رہے ہیں جسے اب چھپایا جاتا ہے۔ اعتدال پسندعباس ستانگزئی سابق افغان صدر استاد برہان الدین ربانی اور سلفی عقائد کے حامل عبد الرب رسول سیاف کے ساتھ کام کر چکے ہیں جو آل سعود سے قربت رکھتے ہیں۔طالبان حکومت میں نائب وزیر خارجہ رہے۔عباس ستانگزئی فوجی اور سیاسی امور کے ماہر ہیں وہ ہفت زبان ہیں لیکن انگریزی زبان پر انہیں خصوصی مہارت ہے۔
مولوی ضیاء الرحمان مدنی کا تعلق تخار سے ہے وہ تاجک ہیں۔ تخار کے گورنر رہ چکے ہیں۔مولوی عبد الاسلام حنفی جوزجان کے ازبک ہیں۔ وہ ابتداء ہی سے طالبان تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ عالم دین ہیں۔ کراچی میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ مولوی عبد الاسلام حنفی کابل یونویرسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں۔دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل شیخ شہاب الدین دلاورلوگر سے ہیں۔ وہ پاکستان اور سعودی عرب میں سفیر رہ چکے ہیں۔صوبے پکتیا کے ملا عبد الطیف منصورمشہور کمانڈر مولوی نصر اللہ منصور کے بھتیجے ہیں۔اورزگان کے ملا عبدالمنان عمری طالبان تحریک کے سربراہ ملا محمد عمر کے بھائی ہیں۔ انھیں طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کے دور میں کچھ ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں۔تاہم بیشتر اوقات وہ منظر سے غائب رہے۔ صوبے پکتیکا کے مولوی امیر خان متقی وزیر اطلاعات رہے ہیں۔ملا محمد فاضل مظلوم صوبے اورزگان سے ہیں۔ 2018ء میں جب طالبان کی طرف سے یرغمال بنائے جانے والے امریکی شہری بوئی برگودال کو رہا کیا گیا تو اس کے بدلے میں گوانتانامو میں قید پانچ طالبان قیدیوں کی بھی رہائی عمل میں لائی گئی جن میں محمد فاضل مظلوم بھی شامل تھے۔ قندھاری ملا خیراللہ خیرخواہ ہرات کے گورنر رہ چکے ہیں۔ گوانتانامو جیل میں قید کا اعزاز رکھتے ہیں۔ ننگرہارمولوی مطیع الحق نامور جہادی کمانڈر مولوی یونس خالص کے صاحبزادے ہیں۔ انس حقانی طالبان کے قطر سیاسی دفتر اور مذاکراتی ٹیم کے واحد رکن ہیں جو اس وقت افغانستان میں پابند سلاسل ہیں۔ انس حقانی مشہور جہادی کمانڈر مولوی جلال الدین حقانی کے صاحبزادے اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ملا نوراللہ نوری صوبے زابل سے ہیں۔ وہ امریکی جیل گوانتانامو میں قید رہ چکے ہیں اور ان کا افغانستان کے مشرقی صوبوں میں خاصا اثر رسوخ رہا ہے۔ ملا عبد الحق وثیق کا تعلق غزنی سے ہے۔ وہ طالبان حکومت میں انٹیلی جنس چیف رہے ہیںاور ملا عبدالغنی برادر اسیر پاکستان رہے ہیں۔ اب فوجی جہازوں پر دوحہ، اسلام آباد اور عالمی منازل سر کرتے پھرتے ہیں۔
طالبان نے میدان جنگ کے بعد سفارتکاری کے میدان میں بھی دنیا کو حیران کردیا ہے کہ وہ کس قدر منظم، یکسو اور ہدف کے حصول پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ طالبان کو مدارس کے بددماغ مولوی سمجھنے والوں کی آنکھیں یقیناًکھل رہی ہوں گی کہ مغربی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کر لینا دانائی اور حکمت کاری کی ضمانت نہیں۔کیا طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات میں پھر رکاوٹ آگئی ہے؟ قطر میں طے شدہ مذاکرات کی منسوخی کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ سے ہونے والے معاہدے کی خبریں درست نہیں تھیں؟ قطر میں طالبان کے دفتر کے ختم ہونے کی اطلاعات کسی نئے امڈتے طوفان کا پیش خیمہ ہیں یا پھر امریکہ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے؟ کیا آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں پاکستان پر دباؤ کا تعلق بھی اس سے جڑا ہے؟ یہ ہیں وہ سوالات جن کے جواب درکار ہیں اور جو افغانستان اور خطے میں نئی سیاسی چالوں کا پتہ دے رہے ہیں۔
مذاکرات کا اچانک منسوخ ہونا زلمے خلیل زاد کے لئے یقیناًتلخ تجربہ ہوگا۔ گزشتہ ملاقاتوں میں ہونے والی پیشرفت کو تاریخی قرار دے کر جو نئی امیدیں وابستہ کی گئیں وہ یکلخت زمین بوس ہوتی محسوس ہورہی ہیں۔ وہ یقیناًاس پیشرفت پر مایوس ہوئے ہوں گے جیسا کہ دیگر وہ تمام لوگ جو افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ نسل در نسل خون کا خراج دیتے معصوم اور بے گناہ افغان عوام کو آسودگی میسرآئے اور وہ زندگیوں کی تلخیوں سے اماں پائیں۔مذاکرات میں تعطل کی وجہ مذاکرات میں شامل افراد کی نمائندگی بنی ہے۔ طالبان پہلے ہی سے اس نکتہ پر آمادہ نہیں تھے کہ وہ افغان حکومت سے بات چیت کریں۔ صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی قیادت میں اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے تڑکے کے ساتھ جو انتظام افغانستان میں برسراقتدار ہے، اسے طالبان جائز مانتے ہی نہیں لہذا ان سے بات چیت کا ان کے نزدیک سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کچھ کوششیں ہوئی کہ مذاکرات میں افغان حکومت کے نمائندے ہی شامل کرلئے جائیں تاکہ بحران ختم ہو اور ایک بہتر انداز میں مفاہمت اور امن کسی منطقی انجام کو پہنچ سکے۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024