جنوبی وزیرستان پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کا ایک ضلع ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی اور اس علاقے پر ان کا پورا کنٹرول تھا۔ جنوبی وزیرستان میں 2009ء میں آپریشن راہِ نجات کا آغاز ہوا جو کہ مختلف چھوٹے چھوٹے آپریشنز کی شکل میں 2015ء تک جاری رہا۔ 2016ء میں ساؤتھ وزیرستان میں آئی ڈی پیز کی واپسی سٹارٹ ہوئی۔ جنوبی وزیرستان کے لوگ جب واپس لوٹے تو کچھ بھی باقی نہیں تھا۔ ظاہر ہے جہاں بھی جنگ ہوتی ہے تباہی لوگوں کا مقدر بن جاتی ہے۔ ٹوٹے پھوٹے سڑک شکستہ حالی کا منظر پیش کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ کھمبوں پر بچھائی گئی تاریں اور وہاں موجود ٹرانسفارمر بھی غائب تھے۔ ٹیوب ویل بند پڑے تھے۔ راہِ نجات آپریشن کے دوران خصوصی طور پر محسود قبائل نے حربی کارروائیوں کے وقت جس برداشت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ان کی دوستی کی ناقابلِ فراموش مثال ہے۔
دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان جہاں تعلیم کو خواب سمجھا جاتا تھا۔ اس خواب کو محسود ویلفیئر ایسوسی ایشن نے سچ کر دکھایا۔ بلا شبہ اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم کے لیے ایک بڑا قدم ہے۔ قارئین کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کے لیے ایٹم بم اور اسلحوں کی ضرورت نہیں اگر حصولِ تعلیم کی راہوں میں رکاوٹ ڈال کر اسے جہالت کے اندھیرے میں دھکیل دیا جائے تو وہ خودبخود تباہ ہو جاتی ہے۔ ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کچھ اسی طرح کے تھے۔ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت جنوبی وزیرستان کے لوگوں کو دین و دنیا سے متنفر کرنے کی گھناؤنی سازش کو پاک فوج اور جنوبی وزیرستان کے عوام نے ناکام بنا دیا۔ اسلیے پاک فوج اور سول انتظامیہ کے افسران نے یہ طے کیا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں معیاری سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ خوشحالی اور ترقی کے جو منصوبے اختتام پذیر ہوئے ہیں یا آئندہ پایہ تکمیل کو پہنچیں گے وہ نہ صرف ان قبائلیوں کی قربانی کا صلہ ہے بلکہ ان کے شاندار مستقبل کے ضامن بھی ہوں گے۔
ایجوکیشن سٹی کا سنگ بنیاد جس جگہ رکھا گیا ہے اس کا نام ماولے خان سرائے ہے۔یہ جنوبی وزیرستان کا مرکزی وچوکور نما مقام ہے۔ جس تک جنوبی وزیرستان کے ہر علاقے کی رسائی ممکن ہے۔ اس عظیم درسگاہ کا افتتاح پشاور کور کمانڈر 11شاہین مظفر محمود نے کیا۔ چیئرمین محسود ویلفیئر ایسوسی ایشن رحمت خان محسود کا کہنا ہے کہ اس درسگاہ کا مقصد کم پیسوں میں اعلیٰ تعلیم مہیا کرنا ہے۔ وژن یہ ہے کہ کم از کم دس یونیورسٹیاں ہوں گی جس میں نہ صرف پوسٹ گریجوایٹ بلکہ ڈاکٹریٹ لیول پر سبجیکٹ ہوں گے۔ میڈیکل، انجینئرنگ، ایگری کلچر، ایئر سپیس اور دور جدید کے جتنے علوم ہیں سبھی کی درس و تدریس یہاں ہوگی۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ گھر کی دہلیز پر تعلیمی ادارے کے قیام پر بے حد مسرور ہیں کیونکہ تعلیم کے حصول کے لیے انہیں دور دراز علاقوں، صوبوں اور اضلاع کا سفر نہیں کرنا پڑے گا۔ 1400 مستحق سٹوڈنٹس کی تعلیم کا فری انتظام و انصرام کیا جائے گا۔ جنوبی وزیرستان میں تعلیم کے فقدان کی بنیادی وجہ وہاں کی فرسودہ قبائلی روایات اور ناکارہ طرزِ معاشرت ہے۔
سب سے بڑا المیہ ہے کہ خواتین کی تعلیم پر قدغن ہے، جنو بی وزیرستان میں بچیوں کی تعلیمی سہولیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز جنوبی وزیرستان میں چند بچیوں نے تعلیم ہمارا حق ہے، ہمیں ٹیچرز مہیا کرو کے فلک شگاف نعروں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اُن کی آنکھوں میں ملکی ترقی کے لیے خواب اور جرأت کی چمک دیدنی تھی۔ اب امن جنوبی وزیرستان میں آگیا ہے مگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی حکومت کے لیے اہم چیلنج ہے۔
خواتین کی تعلیم پر کچھ حلقے بڑی غلط فہمیاں رکھتے ہیں کہ تعلیم صرف اور صرف لڑکوں کی میراث ہے۔ قدامت پسند اور مذہبی ٹھیکیداریت کا دعویٰ کرنے والے اگر تعصب کی عینک ہٹا کر دیکھیں اور اسلام کا بغور مطالعہ کریں تو یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ اسلام نے اس امتیازی سلوک کا خاتمہ سورئہ نساء کی پہلی آیت سے کر دیا تھا۔ تنگ اذہان میں یہ بات کس طرح پیوست کر دی جائے کہ حالات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا نہ جانے کب خواتین پر معاشی بوجھ آن پڑے تو تعلیم کے ذریعے کم از کم وہ اپنی معاشی کفالت تو احسن طریقے سے سرانجام دے لیں گی۔ جنوبی وزیرستان میں اکثر و بیشتر خواتین بیوہ ہیں یا ان کا کوئی سرپرست نہیں، نہ تو وہ ہنر سے ناآشنا ہیں اور نہ ہی تعلیم کے زیور سے آراستہ۔ ان حالات میں وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی پسماندہ سوچ کو بدلیں، ترجیحات میں مثبت تبدیلی لائیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024