گزشتہ ہفتے اپنے آرٹیکل میں جدہ میں پاکستانی سکولوں کے متعلق بہت معمولی ذکر کیا تھا ، مگر شکر گزار ہوں کہ یہاں رہنے والے پاکستانیوں نے جنکے بچوں کا مستقبل اس جدہ کے عزیزیہ اسکول اور رحاب سکول (انگریزی سیکشن ) وابستہ ہے انہوںنے مبارکبادیں دیں شکریہ ادا کیا کہ یہ نوائے وقت ہی ہے جو پاکستانیوں کی آواز کو ارباب اقتدار تک پہنچائے ورنہ مسائل کو سننے والا کوئی ہے نہیں ۔ جیسے پہلے بھی عرض کیا تھا پاکستانی دوست ملک میں اپنے ہی اداروں اور اپنے ہی لوگوں کی زیادتی کا شکار ہیں اس پر قونصیلٹ کی نااہلی کہ وہاں کسی کی کوئی شنوائی نہیں۔ اس لیے سکولوں میں من مانیاںہیں۔ کمیونٹی نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ نئے آنے والے سفیر راجہ علی اعجاز نے کچھ اقدامات کرکے مسائل معلوم کرکے انہیں حل کرنے کا عندیہ دیا ہے اللہ خیر رکھے اور وہ اپنے اس اقدام پر قائم رہیں ورنہ نوکر شاہی اور افسران مسئلے کو اس حد تک لے جاکر مسئلہ کے حل کی طلب رکھنے والے کو بھی من گھڑت کہانیوں سے متنفر کردیتے ہیں ۔ اگر زیادہ حقیقت بیان کردی جائے تو HOME MADE صحافی رکھے ہوئے ہیں جو آواز اٹھانے والے کی کردار کشی کرتے ہیں اسکے بدلے ایک وقت کا کھانا اور دعوت میسر آجاتی ہے ۔ اب کیا یہ حقیقت نہیں کہ جدہ کے عزیزیہ سکول میں سولہ لاکھ ریال سکول کی تزئین ، و رنگ و روغن پر خرچ ہوئے ، کیا یہ حقیقت نہیں کہ دونوں سکولوں میں وزارت تعلیم سعودی عرب کے قانون کے مطابق school management committee شائد عزیزہ میںتو ہے مگر رحاب سکول کی کمیٹی جو سکول کے معاملات چلانے کیلئے ہوتی ہے شائد ہو تو مگر اسکا نہ ہی والدین کو پتہ ہے اور نہ کمیونٹی کو ، رحاب سکول کے پرنسپل سے میں نے درخواست کی تھی کہ کسی ممبر کا رابطہ دے دین جو گزشتہ پانچ روز سے آج تک نہ ملا ، دونوں سکولوں کا کوئی آڈٹ نہیں ، سکول کوئی تجارتی ادارہ نہیں اسکی آمدن فیسوں سے ہی ہوتی ہے جو والدین کی جیب سے جاتی ہے اسکا کیا مصرف ہے ،اخراجات کے چیک کون دستخط کرتا ہے نہ ہی حکومت پاکستان کو پتہ ہے اور نہ حکومت پاکستان کے نمائندہ افراد کو جنہیں تنخواہیں اور مراعات پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں سے ملتی ہیں ، وہ اب اس پر کوئی نظر نہیں رکھتے ، شائد بہت ایمانداری سے اخراجات ہوتے ہیں مگر اسے پوشیدہ رکھنا یا آڈٹ نہ کرانے کا کیامطلب ؟ گزشتہ ہفتے تیس اساتذہ کو ایک ساتھ فارغ کردیا گیا مطلب یہ کہ ان معاملات کی چھان بین مشکل نہیں اگر وطن اور پاکستانیوں کے محبت سے سر شار ہوکر ایک دفعہ اسکی تحقیق کی جائے دوسرا اہم مسئلہ سکولوں کی معیار تعلیم کا ہے ، گزشتہ سالوں میں یہاں کے بچے سکولوں ، اسلام آباد بورڈ، o/level, A/level میں نمایاں نتائج حاصل کرتے تھے جسکا سلسلہ اب ناپید ہوچکا ہے ۔ اسکے لئے سکولوں میں درس و تدریس کے تجربہ کار اسٹاف کا ہونا ضروری ہے ۔ کمیونٹی اور والدین انتظار کریں جہاں ایک عرصے سے یہ افراتفری ہے نئے سفیر راجہ علی اعجاز کی کاوشوںکو ثمر دیکھ لیں ۔ چونکہ اسوقت پاکستانیوں کے لئے سعودی عرب کے سکولوں کی دیکھ بھال اور بہتر فیصلوںکی سفیر ایک واحد امید ہیں ، ورنہ پاکستان درخواستیں بھیج کر ’’ مولانادرخواستی ‘‘ بننے کا فی الحال کو ئی فائدہ نہیں چونکہ پاکستان میں سیاسی حکومت سات ماہ بعد بھی اپنے پیروںپر کھڑی نہیںہو پارہی ، اب تک ہم اپنی معاشی پالیسوں اور عوام کیلئے فلاح و بہبود جو وزیر اعظم کا وعدہ ہے مگر اسپر کوئی واضح پالیسی نہیں اپنا سکے ، وزیر سمندر پار پاکستان جو ’زلفی بخاری ‘ وزیر اعظم کے دوروں کے دوران انکے ہمراہ بہ حیثیت دوست تو نظر آتے ہیں مگر وزیر اعظم نے جو کام سونپے ہیں سمندر پار پاکستانیوںکے اسپر کوئی پیش رفت نہیں ، وزیر اعظم سے اگر اس مسئلے پر سوال کیاجائے تو وہ جیسے اسد عمر ( سابق وزیر خزانہ ) کو معاشیات کا افلاطون کہاکرتے تھے اسطرح زلفی بخاری کا کاموں کا ذکر کردیںگے ، مگر اوئورسیز پاکستانی انکے درشن سے محروم ہیں خاص طور پر سعودی عرب میںجہاں سولہ لاکھ سے زائد پاکستانی ہیں غرض کسی مسئلے کا حل نہیں جب تک پاکستان میں عوام کی حکومت مضبوطی اختیار نہ کرلے انہیں فرصت ملے کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں کے معاملات کو بھی سنے ، سات ماہ میں ناتجربہ کار لوگوں نے عوام کو مایوسی کی طرف مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر فی الحال دھکیل دیا ہے اسکے باجود کہ عمران خان کے ویثرن پر عوام کو ابھی اعتماد ہے وزیر اعظم نے اپنے ہمراہ پارٹی سے باہر کے موسمی electables کو جمع کیا جس کا نتیجہ وزیر اعظم نے دیکھ لیا کہ یہ electables کس قدر بلیک میل کرتے ہیں وہ آتے ہی ہر حکومتی پارٹی کی حمائت میں اسی لئے ہیں اور یہ تو ہر کامیاب حکومت کے یا جماعت کے سامنے برائے فروخت کا بورڈ لگا کر کھڑے ہوجاتے ہیں وزیر اعظم نے اس بلیک میلینگ سے تنگ آکر صدارتی نظام کی آواز اٹھائی مگر بجٹ ، اور IMF سر پر تھے اسلئے imf کے پیکج میں ہی مشیر خزانہ بھی ساتھ لے لیا کہ ‘گلشن کا کاروبار چلے ‘‘سکولوں کے متاثرہ والدین ، بچے ، اساتذہ ، دعا کریں کہ جب تک ہماری حکومت پاکستان میں ہوش و حوا س میں آئے اس سے قبل ہی سفیر پاکستان اپنی ذمہ دار سمجھتے ہوئے ان مسائل کو حل کرکے سعودی عرب میںپاکستان کے بہترین سفارت کار ایوارڈ حاصل کریں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024