روحی بانو کے بارے میں بہت پہلے لکھنا چاہتا تھا۔ میں نے اس کا عروج دیکھا اور زوال بھی۔ وہ 25جنوری کو ہمیشہ کے لیے اپنی پریشانیوں اور مسائل سے نجات پا گئی۔ روحی بانو مختلف ذہنی اور جسمانی عوارض میں مبتلا رہی۔ وہ سائیکالوجسٹ تھی۔ یعنی نفسیات میں ایم اے کیا تھا۔ اس نے اپنی بیماری کو سائیکوسمیٹکس (نفسیاتی طور پر جسم انتشار کا شکار ہو جاتا ہے) کا نام دیا۔ وہ دوسروں کی تحلیل نفسی کرتی رہتی تھی مگر اپنا نفسیاتی تجزیہ نہ کر پائی۔ وہ بہت بڑی آرٹسٹ تھی۔ اس کے فن کو چاہنے والے بہت تھے۔ اس میں خود اعتمادی کی کمی کیوں تھی۔ اس بات کی سمجھ نہ آئی۔ شاید اس نے اپنی طرف توجہ دینا چھوڑ دی تھی۔ وہ اتنے زیادہ مسائل کا شکار ہو گئی کہ فرار کی راہیں تلاش کرتی رہی۔ یہ مسائل اس کے اپنے پیدا کردہ تھے۔ کوئی ایسا شخص نہیں جس کے مسائل نہ ہوں۔ فنکار کیوںکہ حساس ہوتا ہے، اس لیے اسے مسائل محسوس ہوتے ہیں۔ میں نے روحی بانو کو بابا فریدؒ کا شلوک سنایا اور اس کا ترجمہ بھی:۔؎
فریدا میں جانیا دکھ مجھ کو دکھ سبھائے جگ
اُچے چڑھ کے دیکھیا تاں گھر گھر ایہا اگ
ترجمہ: (میں نے جانا تھا کہ دکھ صرف مجھ ہی کو ملا ہے لیکن دکھ تو ساری دنیا کے انسانوں کا حصہ ہے۔ جب میں نے بلندی پر چڑھ کر نیچے (دنیا کی بستیوں پر) نظر ڈالی کہ وہاں کے ہر گھر سے دکھ کی آگ کا دھواں اٹھ رہا ہے)
میں نے اسے بتایا کہ یہ جو تم ہر وقت دکھ، پریشانیوں اور مسائل کی بات کرتی رہتی ہو۔ اس کا سامنا کرنا چاہیے۔ عام آدمی کو اپنی ہر شے کا سامنا کرنا چاہیے۔ عام آدمی کو اپنی ہر شے خاص معلوم ہوتی ہے۔ اگر انسان اپنے نفس کو پہچاننے لگے تو اسے نظر آ جاتا ہے کہ اس کے احساسات، خواہشیں اور مایوسیاں دوسرے انسان سے مختلف نہیں ہیں۔ دوسرے کے غم روزگار ویسے ہی ہیں جیسے کہ اس کے اپنے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ جوں جوں زندگی سے زیادہ واسطہ پڑا توں توں میرا اعتماد کم ہوتا گیا۔
ایک المیہ بھی اس کے ساتھ وابستہ تھا ۔وہ المیہ اس کی اپنی ذات کا تھا۔ شروع میں اس کا دھیان اپنی طرف کم رہا۔ دوسری چیزوں کی طرف زیادہ۔ پروفیشن کی طرف زیادہ رہا۔ اس نے زیادہ توجہ فن کی طرف دی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے پذیرائی کم ملی۔ ایوارڈز سب سے زیادہ اسے ملے۔ میں سمجھتاں ہوں، اپنی زندگی کو میلا کرنے میں روحی بانو کا بھی ہاتھ ہے۔ اس نے اپنی طرف توجہ کم دی اور ساری توجہ پرفارمنگ آرٹ پر فوکس کردی۔
دراصل وہ دوسروں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیتی۔ جب وہ توقعات پر پورا نہ اُترتے تو وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتی۔ حمیر ہاشمی، نفسیات میں اس کا استاد رہا۔ ایک بار حمیر ہاشمی نے بتایا کہ روحی میری شاگرد رہی ہے، اس کا آئی کیو (ذہنی سطح) اتنی بلند ہے کہ کوئی حساب کتاب نہیں۔ یہ نبتی ہے۔ اگر تمہیں یہ کہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتا تو اس پر یقین نہ کرنا۔ اس وقت یہ صرف بن رہی ہوتی ہے اور یہ لوگوں کو پاگل بناتی ہے۔ ایسے ہی اسے ’’یملا جٹ‘‘ نہ سمجھ لینا۔
فن میں روحی بانو نے ابتدا ہی میں بہت طویل سفر کر لیا۔ جب واپسی ہوئی تو اسے بہت تکلیف ہوئی۔ بہت زیادہ آگے نکل جانا ہی اس کا المیہ تھا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اس نے فرار کا راستہ اختیار کیا۔ اصل میں وہ خود کو دھوکا دیتی رہی۔ اس کا یقین تھا کہ کوئی ایسا شخص ملے گا جو ہر لحاظ سے مکمل ہو۔ جو اس کی تمام کمیوں کو دور کر دے۔ اس کی ہر خواہش پوری کرے۔ وہی آئیڈیل والی بات ہوئی۔ دراصل وہ تصوراتی زیادہ تھی۔ ازدواجی زندگی بھی اس کی کامیاب نہ رہی۔ علیحدگی ہو گئی۔ اس نے ایک شادی شدہ شخص سے شادی کر لی۔ ظاہر ہے وہ پوری توجہ اسے نہ دے سکا۔ اس کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا۔ ایک بار نہیں، کئی بار۔ بٹی ہوئی توجہ نے اسے خود بانٹ دیا۔ روحی بانو نے جذباتی پن میں شادی کی۔ اسے پتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ اس کی بیوی بچے تھے۔ اس نے زیادہ نہیں کھویا، روحی بانو نے زیادہ کھویا۔
روحی بانو نے مجھے بتایا، ایسی بات نہیں، کھویا اس نے بھی ہے۔ اس کا کاروبار تباہ ہو گیا۔ اس کی ذہنی زندگی تباہ ہوئی، اسے ذہنی سکون نہیں۔ محبت کرتا تھا یا نہیں۔ بحران دونوں پر آیا۔ روحی بانو کو شادی کے بعد مالی آسودگی حاصل ہوئی۔ کار، کوٹھی، بینک بیلنس، یورپ کی سیر۔ مگر اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ بقول روحی بانو، اگر مجھے پتا ہوتا کہ مجھے اتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی تو میں یہ سودا نہ کرتی۔ مجھے ان چیزوں سے زیادہ محبت پیار کی ضرورت تھی۔ پھر اس نے یہ شعر سنایا جو اس کی دوست شبنم شکیل کا ہے:۔؎
کاش ایسا بھی ہو قیمت نہ ادا کرنی پڑے
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓاور مل جائے مجھے کو ئی خوشی آپ ہی آپ
زندگی میں سب کچھ اپنے آپ نہیں ملتا۔ اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ۔ روحی بانو نے قیمت ادا کردی۔ سب کچھ تباہ ہو گیا۔ وہ بہت زیادہ جذباتی اور آئیڈیالسٹک تھی۔ ذہنی خودکشی وہ کئی مرتبہ کر چکی تھی۔ گفتگو کے اختتام پر اس نے مجھے کہا تھا:۔؎
عمر گزری پباں بھار
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024