پانی کی شدید قلت‘ ڈیمز بنانے کی ضرورت
پاکستان کے وسیع وعریض صحرائی چولستان اور عباسیہ و کچہ کے علاقوں میں نہری پانی کی شدید قلت سے سونا اگلتی زمینوں سے ریت اڑنا شروع ہو گئی۔ چولستان کی جدید و قدیم عباسیہ نہروں سے نکلنے والی نہریں ون ایل‘ ٹو ایل‘ تین ایل‘ ون آر‘ ٹو آر‘ تھری آر‘ فور آر‘ فائیو آر‘ سکس آر اور سیون آر میں پانی کی فراہمی بند ہونے سے انسان اور جانور پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں۔ ان علاقوں میں زیر زمین پانی کڑوا‘ مضر صحت اور ناقابل استعمال ہے۔ یہاں کے کنویں‘ ٹوبے اور قدرتی گھاس خشک ہو گئے۔ ربیع کی فصل تباہ اور خریف کی کاشت نہیں ہو سکی جبکہ کچہ کے علاقوں کو سیراب کرنے والی اکلوتی نہر پنجند کینال میں سالانہ وارہ بندی کے تحت 15 اپریل تا 15 اکتوبر تک پانی چھوڑا جاتا ہے۔ اس نہر سے منچن برانچ اور اس نہر سے نکلنے والی کوئی مائنر‘ گلزار مائنر‘ عارف مائنر‘ چوسر مائنر میں پانی کی فراہمی ناممکن ہو چکی ہے کیونکہ عباسیہ اور چولستان کی نہر مستقل نہروں میں تاحال پانی نہیں چھوڑا گیا۔ غیر مستقل نہروں میں پانی ناقابل یقین ہوتا ہے۔ پانی کا حالیہ بحران ضلع رحیم یارخان کی بیس لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کی معاشی بقاء کے لئے ایک خطرہ بن چکاہے۔ سابق ریاست بہاولپور میں نہری نظام کی بنیاد گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں اس وقت رکھی گئی جب ستلج ریلی پروجیکٹ کے نام سے پنجند ہیڈ ورکس کی تعمیر دریائے ستلج اور چناب کے سنگم پر شروع کی گئی۔ یہ مقام ریاست بہاولپور کے مشہور تاریخی بزرگان دین کے شہر اوچ شریف سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس منصوبہ کا بنیادی مقصد اس خطہ کی آبیاری و آبپاشی کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ پنجند ہیڈ ورکس کے بائیں کنارے سے دو نہریں نکالی گئی ہیں جن میں سے پنجند کینال میں 10500 کیوسک پانی کی گنجائش رکھی گئی۔ یہ نہر ضلع رحیم یار خان کی چاروں تحصیلوں لیاقت پور‘ خان پور‘ رحیم یار خان اور صادق آباد کو پانی فراہم کرتی ہیں جبکہ دوسری قدیم نہر عباسیہ کنال میں 2000 کیوسک پانی کی گنجائش ہے۔ اس نہر سے ضلع بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ اور ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور اور ان پور کی وہ زمین سیراب ہوتی ہیں جو ریلوے لائن کی جانب جنوب مشرق میں واقع ہے۔ جدید عباسیہ نہر کو 1980ء کی دہائی اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور اقتدار کے دوران تعمیر کیا گیا جس پر تقریباً چار ارب روپے لاگت آئی جبکہ پنجند کینال کی ری ماڈلنگ کے لئے صرف 80 کروڑ منظور کئے گئے۔ پنجند کینال کے 10500 کیوسک پانی میں سے 3500 کیوسک پانی عباسیہ لنک کینال کو دینے کی اطلاع ہے۔ اس نہر سے دس لاکھ پچاس ہزار ایکڑ جبکہ عباسیہ لنک کینال سے چار لاکھ پچاس ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہوتی ہے اور اسے مستقل بنیادوں پر چلایا گیا ہے جس کی وجہ سے چولستان کا 30/40 فیصد رقبہ سیم و تھور کا شکار ہو چکا ہے۔ چولستان کی آبادی 66 لاکھ 55 ہزار 365 ایکڑ رقبہ پر محیط ہے لیکن کچہ اور عباسیہ کی طرح چولستان میں بھی انسان اور جانور پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں۔ اس قیامت خیز گرمی میں مستقل نہروں میں پانی کی عدم فراہمی سے روہی کی ریت نے قیامت صغریٰ برپا کر دی ہے۔ زرخیز علاقوں میں فصل خریف کی کاشت تاخیر کا شکار ہو رہی ہے۔ جدید عباسیہ لنک کینال کا باقاعدہ افتتاح 2003-04 میں ہوا۔ اس نہر میں 5000 کیوسک پانی کی گنجائش ہے۔ اس وقت اس نہر سے چولستان کی نئی آبادی کو فیض یاب کیا جا رہا ہے۔ عباسیہ لنک کینال کی تعمیر کے بعد پنجند کینال سسٹم کے پانی کے حصہ میں نمایاں اور خطرناک حد تک کمی کر کے اس سسٹم سے مستفید ہونے والی پرانی آبادی کے روایتی اور تاریخی حقوق کو نہایت ہی ظالمانہ انداز سے غصب اور ختم کر دیا گیا۔ حکومت پنجاب کے اس فعل سے ضلع رحیم یارخان کی پرانی آبادی اور وسیب سے غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک کی غمازی ہوتی ہے۔ اس خطہ کے عوام کی پانی سے محرومی ان کے زندہ رہنے کے بنیادی حق سے انکار کے مترادف ہے۔ اس وقت پنجند کینال سے سیراب ہونے والے علاقہ جات سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ ان کے پیشتر علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح ریکارڈ حد تک کم ہو گئی ہے۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق اس علاقے کے بہت سے مقامات پر زیر زمین پانی زہر آلود ہو چکا ہے اس میں آرسینک کی ملاوٹ پائی جاتی ہے اور اس پانی کو انسانی استعمال اور فصلوں کے لئے مہلک قرار دیا گیا ہے۔ پنجند کینال سسٹم کے پانی کا رخ نو تعمیر شدہ عباسیہ لنک کینال کی جانب موڑنے کے نتیجے میں یہاں کے باسیوں کی معاشی بربادی اور زبوں حالی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ پانی کی قلت کے ازالے کے لئے ان علاقوں میں سکارپ ٹیوب ویل سکیم کے تحت نصب ہونے والے ٹیوب ویلوں کو بند کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ریاست بہاولپور کی پرانی آبادی کے رہائشیوں میں مایوسی‘ بددلی اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عارضی پانی کی فراہمی اور زراعت پیشہ افراد کو بچانے کے لئے بند شدہ ٹیوب ویلوں کو بحال کیا جائے۔ پنجند کینال اور جدید عباسیہ کینال میں آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے مساویانہ پانی تقسیم کیا جائے۔ ناانصافی کو ختم کر کے حق و انصاف و مساوات کے اصولوں پر مبنی پانی کی تقسیم کو یقین بنایا جائے تاکہ ملک کے تمام طبقوں اور علاقوں میں اخوت‘ یگانگت اور ہم آہنگی کے جذبات پیدا ہوں کیونکہ زراعت کا انحصار پانی پر ہے۔ پانی کے بغیر کوئی ملک بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ پانی کے بغیر انسان‘ جانور اور ہر ذی روح اور زراعت تباہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے سمندر میں جانے والے پانی کو روکنے کیلئے کالا باغ ڈیم کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر پانی کی قلت کا خاتمہ اور ہمسایہ ملک بھارت کی ہٹ دھرمی کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ آج کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی کسی بھی دور سے زیادہ ضرورت ہے۔