انکل چیف جسٹس
وہاں چہار سو سبزہ ہی سبزہ تھا اور دل کو موہ لینے والی پرسکون خاموشی ‘ خوبصورت چھوٹے بڑے درخت۔ سرسبز و شاداب وادی اور موسم بہار کا۔ بھینی بھینی مسحور کن خوشگوار ہوا۔ ایسے جیسے صبا ونسیم کی شمیم میں خوشبوؤں کے عطر مہک رہے ہوں اور سامنے دور پہاڑوں کے بیچ سے نکلتی صاف و شفاف نہریں۔ جنہوں نے یہاں وادی تک کے منظر کو اور بھی حسین و دلکش بنا دیا تھا۔ ایسا دلکش منظر جو اس سے پہلے کسی آنکھ نے دیکھا ‘نہ کسی کان نے سنا۔ تخیلات کے ان خوبصورت‘ بل کھاتے‘ لہراتے راستوں پر میں اب تھوڑا اور آگے بڑھا تو مجھے ننھی پریوں کی خوبصورت آوازیں سنائی دینے لگیں۔ جیسے بادِ صبا میں پرندے حمد باری تعالیٰ کہتے ہوں۔ میں یہاں سے تھوڑا اور آگے بڑھا تو ایک طرف مجھے دل آویز مسکراہٹوں کے ساتھ ننھی پریاں آپس میں کھیل کھیلتی نظر آئیں۔قصور کی لائبہ‘ ایمان فاطمہ اور عائشہ’’سٹاپو‘‘ کھیل رہی تھیں‘ وہیں ان سے تھوڑے فاصلے پر نور فاطمہ اور تہمینہ بھی مجھے نظر آ گئیں جو ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ’’ککلی‘‘ کھیلنے میں مشغول تھیں۔ پریوں کے لباس میں یہ پریاں‘ یہ شہزادیاں بہت ہی پیاری لگ رہی تھیں۔
میری پرتجسس نگاہیں اب خیالات کے رستے پر اور آگے بڑھیں تو ایک صاف و شفاف دودھ کی نہر کے قریب خوبصورت پھولوں کی کیاریوں کے بیچ پھول سی آسمہ مردان کی آسمہ بیٹھی نظر آئی۔ آسمہ دوسری بچیوں کے برخلاف یہاں ایک طرف بالکل الگ گم سم سی بیٹھی تھی۔ آسمہ بیٹا۔ تم یہاں اکیلی کیوں آبیٹھی ہو‘ میں نے اس سے کہا۔ میری آواز پر آسمہ نے ایک نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا تھا اور پھر دوبارہ پھولوں پر ٹکٹکی باندھے تنہائیوں کی اپنی دنیا میں محو ہو گئی تھی۔ میں وہاں سے چلنے کو ہی تھا کہ آسمہ اچانک بولی‘ ابھی ہم نے۔ ہم نے دنیا کی اپنی زندگی میں دیکھا ہی کیا تھا؟ امی جان نے اپنی آنکھوں میں میرے لئے کیسے کیسے خواب سجا رکھے تھے؟ اور ابو! ابو جان تومجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ آسمہ اپناحال دل کہہ رہی تھی۔ یا مجھ سے دل چیر دینے والے سوالات کر رہی تھی میں نہیں جانتا۔ ہاں مگر اس کا انداز ضرور سوالیہ تھا۔ اور میرے پاس اس معصوم پری کے ان معصوم سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ بس غم تھا‘ دل میں درد اور اضطراب۔ اضطراب جو روح تک میرے اندر اتر گیا تھا‘ اور جس نے مجھے تڑپا دیا تھا۔ رلا دیا تھا اور میں نے اپنے رونے کو سسکیوں میں اور سسکیوں کو دانتوں میں دبا لیا تھا۔ وہ مجھ سے کہنے لگی۔ آپ میری امی کو تسلی دینا۔ میری امی سے کہنا۔ امی جان میں جانتی ہوں‘ آپ مجھے بہت مس کرتی ہیں۔ آپ آج بھی میری یاد میں سسکیاں بھرتی ہیں اور روتے روتے اپنا دوپٹہ اپنے دانتوں میں دبا لیتی ہیں مگر امی جان۔ آپ غم نہ کھائیں‘ میں اور دوسری ساری لڑکیاں یہاں اﷲ کی جنتوں میں بہت خوش ہیں۔ کل قیامت کے دن ہم ساتھ میں ہوں گے۔ وہ کہنے لگی آپ میری امی جان سے یہ بھی کہنا کہ آپ مجھے پڑھانا چاہتی تھیں ناں۔ تو امی جان یہاں ہم سب بچوں کو قرآن مجید زبانی یاد ہے۔ ہم سب قرآن عظیم کی حافظہ ہو گئی ہیں اور ہمیں اس کی تفسیر کی بھی سمجھ ہے۔ ہم سب اﷲ کی جنتوں میں کھیلتے کودتے ہیں‘ جہاں چاہتے جاتے اور جو چاہتے کھاتے پیتے ہیں۔ جنت کے پھولوں سے اپنے کنگن اپنے ہار بناتے ہیںاور ہاں۔ سب سے اہم یہ کہ یہاں ہم سب محفوظ ہیں۔ یہاں ہمیں کسی بھیڑیے سے‘ کسی انسانی بھیڑیے سے کوئی خطرہ نہیں۔ آسمہ‘ لائبہ‘ ایمان۔ آؤ جلدی آؤ۔ ہم سب جنت کے مین گیٹ پر جا رہے ہیں‘ چلو جلدی کرو۔ عائشہ! تم بھی نور اور تہمینہ کو لے کر مین گیٹ پر پہنچو یہ آواز قبولہ شریف کی کلثوم کی تھی۔ مگر یہ سب کو کیوں اکٹھا کر رہے ہیں۔ کلثوم کیوں سب کو جنت کے صدر دروازے پر چلنے کا کہہ رہی ہے۔
میرا دل انجانے‘ ان دیکھے خوف کا شکار ہونے لگا۔ خدا خیر! یارب! کہیں پھر کوئی اور ننھی پری تو…؟ میرا دل بارگاہِ ایزدی میں شدت سے گڑ گڑانے لگا تھا۔ میں جاننا چاہتا تھا ۔ کلثوم سے پوچھنا چاہتا تھا‘ پر ہمت نہ ہو پا رہی تھی۔ کلثوم! تم ہمیں جنت کے مین گیٹ پر کیوں لے جا رہی ہو؟ عائشہ نے میری مشکل آسان کر دی تھی۔ وہ چلتے چلتے کلثوم سے پوچھ رہی تھی ارے یار۔(جاری ہے)
وہ رابعہ آرہی ہے ناں کراچی سے اور مقبوضہ کشمیر کی آصفہ بھی اس کے ساتھ ہے۔ وہ ابھی غمزدہ ہوں گی۔ سو ہم سب انہیں لینے چلتے ہیں۔ ہمیں سامنے پا کر وہ سنبھل جائیں گی اور ان کا غم ماں باپ سے بہن بھائیوں سے جدائی کا ان کا غم ہلکا ہو جائے گا۔ تم لوگ ذرا تیز تیز چلو‘ وہ دونوں پہنچتی ہی ہوں گی۔ کلثوم جو ساہیوال کی تحصیل عارفوالا کے علاقے ’’قبولہ‘‘ کی رہائشی تھی۔ بولے جا رہی تھی۔ اور میں۔ میرا دل عجب کشمکش میں تھا۔ ایک طرف اب رابعہ کا غم مگر دوسری طرف ایک طرز کا اطمینان بھی۔ اطمینان کہ میرے وطن کی یہ ننھی شہزادیاں یہاں میرے رب کی۔ ہم سب کے رب کی جنتوں میں اس کی مہمان ہیں۔ زینب…؟ مگر زینب تو مجھے اب تک نظر نہیں آئی۔ وہ کہاں ہے؟ اب میری تخیلاتی نگاہیں زینب کو تلاش کر رہی تھیں۔ اسی تلاش میں میں آگے بڑھا تو سرسبز وادی کے بیچوں بیچ یہ راستہ آگے خوبصورت محلات پر جا کرختم ہو رہا تھا۔ جہاں سامنے محلات کی بیرونی کھڑکیوں سے ننھے منے ‘ پیارے پیارے بچے مسکراتے‘ نورانی چہروں کے ساتھ باہر کو جھانک رہے تھے اور انہیں بچوں میں مجھے زینب بھی نظر آگئی۔ ماں باپ کی راج دلاری‘ بہنوں کی لاڈلی‘ اساتذہ کی آنکھ کا تارا اور سہیلیوں کی ہر دلعزیز سہیلی زینب۔ میں اس کے چہرے سے اس کے اندر کی طمانیت محسوس کر رہاتھا۔ اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا۔ خوبصورت ننھی شہزادی اپنے خوبصورت محل سے نکل کر اب باہر میری جانب آ گئی تھی۔ مگر وہ چپ تھی۔ میں تو اس سے سوری کرنا چاہتا تھا۔ میں کہنا چاہتا تھا کہ زینب ہمیں معاف کردو ۔ میں اسے کہنا چاہتا تھا زینب ہم شرمندہ ہیں۔ مگر…!! میں کچھ کہہ نہ سکا۔ اس کے اور میرے درمیان خاموشی اسی نے توڑی کہنے لگی۔ بھیا! آپ چیف جسٹس انکل کو میرا پیغام دیں۔ آپ انہیں کہیں زینب کہتی ہے۔ انکل چیف جسٹس‘ کیوں؟ اب بھی ننھی کلیاں مسلی جا رہی ہیں۔ کیوں آج بھی ماؤں کی گود سونی ہو رہی ہے۔ اور کیوں؟ آج بھی کئی زینبوں کے والد انصاف کیلئے اپنی شہزادیوں‘ اپنی پریوں کو انصاف دلانے کیلئے دردر بھٹک رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک معصوم پری انسان نما بھیڑیوں کی درندگی کا شکار ہے۔
انکل چیف جسٹس! آپ فوری طور پر اس مسئلے کے حل کیلئے ایک جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیں جو ہمارے معاشرے میں ہونے والی ایسی وحشیانہ حرکات کی نفسیاتی وجوہات کا پتہ لگائے اور پھر ان نتائج کی روشنی میں ایک کمشن‘ ایک اتھارٹی تشکیل دی جائے جو معاشرے اور نوجوان نسل میں ہماری اخلاقی اقدار و روایات کی نمو کیلئے عملی اقدامات نہ صرف یہ کہ تجویز کرے بلکہ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔