پنجاب بھر میں گایاں چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ
پنجاب بھر میں گایاں چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ
احسان شوکت
azee_ahsan@hotmail.com
پنجاب بھر میںگاڑیوں کی چوری اورچھیننے کی وارادوتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔پولیس،انٹی وہیکلز لفٹنگ سٹاف(اے وی ایل ایس)،سی آئی اے ،محکمہ پولیس میں نت نئی فورسز،محکمہ ایکسائزسمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی موجودگی اور جگہ جگہ ناکوں،چیک پوسٹوں اور چیکنگ کے باوجود کار چورمافیا لاہور سمیت صوبہ کے دیگر شہروں سے روزانہ درجنوں کاریں چوری کر کے باآ سانی علاقہ غیر،خیبر پی کے لے جاتے ہیں ۔وطن عزیز سے کار چوری کے بعد افغانستان بھی سمگل کرنے کے انکشافات ہوئے ہیں جبکہ ہم اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی دیکھیں توصورتحال یہ ہے کہ کار چورں کی جانب سے کاریں چوری کر کے فروخت کرنے کے علاوہ کار چوری یا چھین کر مالک سے موبائل فون پر ڈیل کر کے 5 لاکھ سے 10 لاکھ روپے تک تاوان وصول کر کے گاڑیاں واپس کرنے کا دھندہ عروج پر ہے ۔ یہ کاروبار اتنی منظم صورتحال اختیار کر چکا ہے کہ سیکورٹی ہائی الرٹ کے باوجود شہرلاہورسے روزانہ آٹھ سے دس گاڑیاں چوری ہونا اور ان کی تاوان کے بدلے واپسی معمول بن چکا ہے۔کار چوری کی واردوتوں میں خواتین بھی ملوث ہیں ۔ صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت صوبہ کے دیگر شہروں میںکار چوروںکے بین الصوبائی گروہ بڑے منظم طریقہ سے سرگرم عمل ہیں۔ جو کاریں چھننے یا چوری کرنے کے بعد بالعموم علاقہ غیر یا خیبر پی کے میں لیے جاکر انہیں مختلف گروہوں کو اونے پونے داموں فروخت کردیتا ہے۔جن گروہوں کو چور کاریں فروخت کرتے ہیں وہ گروہ کار مالک سے رابطہ کر کے اسے منہ مانگے تاوان کے عوض کار واپس کردیتا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس وقت پولیس، سی آئی اے،انٹی وہیکلز لفٹنگ سٹاف(اے وی ایل ایس)، محکمہ پولیس میں نت نئی فورسز،شہر اور اضلاع کی حدود میں پولیس ناکے، ٹول ٹیکس،چیک پوسٹیںاور رکاوٹیں جگہ جگہ موجود ہیں اور ان سب رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود کار چور گروہ دیدہ دلیری اور مشاقی سے پانچ سے آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد پورے پنجاب کو عبور کرکے علاقہ غیر اور خیبر پی کے میںبا آسانی پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ یہ امر بھی انتہائی تعجب انگیز ہے کہ کار چور گروہ مسروقہ کار کے مالک کا ٹیلیفون اور موبائل نمبربھی اپنے ذرائع سے معلوم کرلینے کے بعد مالک سے رابطہ کرکے اس سے گاڑی کے عوض تاوان وصول کرنے کیلئے معاملات طے کرتا ہے اور اس سلسلہ میں اسے ذرائع آمدورفت کا مقررہ روٹ بھی بتایا جاتا ہے جہاں ان کی مقرر کردہ جگہ پر انکا خاص آدمی ان سے رابطہ کرکے انہیں علاقہ غیریاخیبر پی کے کے دورافتادہ بے آباد مقام پر لے جاکر مقررہ تاوان وصول کرکے ان کی گاڑی واپس لوٹا دیتا ہے۔ جو افراد اپنی گاڑی کا تاوان ادا نہیں کرپاتے ان کی گاڑی یا تو اونے پونے فروخت کردی جاتی ہے یا پھر کھول کر اس کے پرزے کباڑیوں کو فروخت کر دئیے جاتے ہیں۔ اس صوتحال میںمتاثرہ شہر ی اپنی مسروقہ گاڑیوں کے عوض منہ مانگا تاوان دینے پر مجبور ہیں ۔ ایسے واقعات بڑے شہروں میں آئے روز رونما ہورہے ہیں اور اس میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔اس کے علاوہ شہریوں سے رقم وصول کرنے کے باوجودگاڑیاں واپس نہ کرنے کے واقعات بھی دیکھنے میں آ ئے ہیں۔ پنجاب میں وہیکلزچوری اور چھیننے کی وارداتیں اتنی بڑھ گئی ہیں اوران میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ گزشتہ سال صوبہ بھر میں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں اور دیگر وہیکلزچوری کے تقریباََ19ہزار جبکہ چھیننے کے 6ہزار سے زائدمقدمات درج ہوئے تھے ۔ صرف صوبائی دارالحکومت لاہور میں رواں سال گاڑیاں و موٹر سائیکلیں چوری اور چھیننے کے ساڑھے سات ہزارمقدمات درج ہوئے ۔یوں ڈاکوؤں اور چوروں کے ہاتھوں ہر روز لاہور کے 15سے 20شہری اپنی کار، موٹر سائیکل یا دیگر وہیکلز سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ تعداد ہے جن کے مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اصل تعداد کہیں زیادہ ہے ۔شہر کے مختلف تھانوں میں درج مقدمات کے مطابق رواں سال2018میں وہیکلز چوری کے4ہزاr5سو 7 6 سو مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ اسی طرح رواں سال2018میںوہیکلز چھیننے کے 8 سو 435 مقدمات درج کئے گئے۔گزشتہ سال لاہور کے مختلف تھانوں میںوہیکلز چوری کے تقریباََ 7 ہزارجبکہ چھیننے کے ایک ہزار مقدمات درج کئے گئے۔ سب سے زیادہ گاڑیاں و موٹر سائیکلیں چوری و چھیننے کی وارداتوں کے ماڈل ٹاؤن ڈویژن میں تقریباََ 1729، دوسرے نمبر پر سٹی ڈویژن میں1623، اقبال ٹاؤن ڈویژن میں 1398، صدر ڈویژن میں 1200، کینٹ ڈویژن میں 1 ہزار جبکہ سول لائن ڈویژن میں تقریباََ ساڑھے8سو مقدمات درج ہوئے۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ تھانوں میں مقدمات درج کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور پولیس مقدمات کے اندراج کی بجائے متاثرہ شہریوں کو تھانے کے چکر لگواتی ہے۔ گاڑیاں موٹر سائکلیں چوری اورچھیننے کے 8ہزار مقدمات میں سے صرف چند سومقدمات کے چالان جمع کرائے گئے۔لاہور پولیس کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ سال سال چوری اور چھینی گئی ساڑھے7 ہزار گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں و دیگر وہیکلز میں سے صرف ایک ہزار کے قریب ہی وہیکلز بر آمد ہو سکی ہیں۔ اگر ہم صوبہ بھر کے تھانوں کی صورتحال دیکھیں تو پولیس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن نظر آ تی ہے۔صوبہ میں رواں سال تقریباََ وہیکلز چوری کے19ہزار مقدمات جبکہ وہیکلز چھیننے کی 6ہزار مقدمات میں سے صرف 15 فیصد وہیکلز ہی بر آمد ہو سکی ہیں۔ باقی گاڑیاں کہاں گئیں۔انہیں زمین نگل گئی یاپھر آسمان کھا گیا ۔ اس کا جواب شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار اور امن و امان قائم کرنے کے بلند وبانگ دعوے کرنے والے پولیس حکام ہی دے سکتے ہیں جبکہ گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں و دیگر وہیکلز جرائم کی یہ وہ تعداد ہے جن کے مقدمات درج ہوئے جبکہ پولیس ڈکیتی و چوری کے مقدمات درج کرنے سے کتراتی ہے اورزیادہ تر وارداتوں کے مقدمات درج نہیں کئے جاتے ہیں اور شہریوں کو ٹرخا دیا جاتا ہے۔حقائق یہ ہیں کہ نہ صرف پنجاب بھر میں گاڑیاں ،موٹرسائیکلیں اور دیگر وہیکلز چوری و چھیننے کے واقعات رونما ہورہے ہیں بلکہ گاڑیاں ،موٹرسائیکلیں اور دیگر وہیکلز چوری و چھیننے اور چوری کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور شہریوں کی عمربھر کی کمائی سرعام لٹ رہی ہے ۔اس کے برعکس پولیس اور دیگرقانون نافذ کرنے والے ادارے گاڑیاں ،موٹرسائیکلیں اور دیگر وہیکلز چوری و چھیننے اور چوری کی وارداتوں میں ملوث مافیا کے خلاف کارروائی، ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور نیٹ ورک توڑنے کی بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔