قومی ہیروز او ر زندہ قومیں
زندہ قوموں کا شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے ہیروز کو کبھی نظر انداز نہیں کرتیں اور ان کو نہ صرف زندہ رکھتی ہیں بلکہ ان کے کارہائے نمایاں سے سیکھتی ہیں اور پھر قومی تقاضوں کے پیش نظر ان کے چھوڑے ہوئے ورثہ سے استفادہ کرتی ہیں مگر ہم وہ حرماں نصیب قوم ہیں جو قومی ہیروز کو ان کی زندگی میں تو بے توقیر کردیتے ہیں اور ان کے جانے کے بعد بڑے تزک و احتشام سے ان کے یوم مناتے ہیں اور ان کی یاد میں منعقدہ تقریبات میں بھی اپنی تحریر و تقریر کو سب سے بہتر انداز اور اسلوب میں پیش کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بڑے لکھاری اور ممتاز دانشور ہیں کیونکہ انہیں اپنی قابلیت کی دھاک بٹھانا مقصود ہوتا ہے اور جس شخصیت کے بارے میں یہ تقریب انعقاد پذیر ہوتی ہے اس کو اپنی تحریر اور تقریر کے مقابلے میں ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ اگلے روز مجھے ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں جنوبی افریقہ کے آنجہانی رہنما نیلسن مینڈیلا کی یاد میں ایک مقام پر اس انداز سے پول لگائے گئے ہیں جو بظاہر تو پول نظر آتے ہیں مگر جب کچھ فاصلے سے دیکھیں تو اس میں نیلسن مینڈیلا کا چہرہ نمایاں ہوجاتا ہے یہ ان آرٹسٹوں کا کمال ہے جنہوں نے یہ پول لگائے ہیں کہ ایسا اس لیے کیا گیا کسی زمانے میں اپنی جدوجہد کے دوران نیلسن مینڈیلا یہاں آکر چھپ گئے تھے جنہیں بعد ازاں گوروں نے اسی جگہ سے گرفتار کر لیا تھا اس واقعہ کی یاد میں یہ سب کچھ کیا گیا اور یہ ان آرٹسٹوں کا کمال فن ہے جس طرح مغل فرمانرروا شاہجہان کے ایما پر ان کے والد گرامی جہانگیر کے مقبرے اور شاہی مسجد کی تعمیر میں ماہرین نے اپنا فن کمال دکھایاہے کہ جب شاہی مسجد یا مقبرہ جہانگیر سے ایک دوسرے کے مینار دیکھیں تو چار کی بجائے تین نظر آتے ہیں۔ہم اپنے قومی ہیروز پر نظر ڈالیں تو قابل ذکر مقبروں میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے علاوہ اگر کوئی اور مقبرہ بنا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کا ہے یہ سب مجھے اس لیے یاد آرہا ہے کہ جمہوریت اور آئین کی بالا دستی اور عوامی مفاد میں جدوجہد کرنے والی اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اسلام آباد ائیر پورٹ کو ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا مگر اگلے ہی روز حکومت پاکستان کے مشیر ہوابازی نے ایک ”ہوائی“ اڑائی کہ بےنظیر بھٹوانٹر نیشنل ائیر پورٹ کا نام اسلام آباد ائیر پورٹ رکھا جا رہا ہے جس پر سینیٹ کے سابق چیئرمین سینیٹر رضا ربانی نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ایک خط لکھا ہے جو اگلے روز ”نوائے وقت“ کے صفحہ اول پر خبر کی صورت میں شائع کیا گیا جس میں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ایسا کرنا سویلین ہیروز کی بے توقیری ہوگی۔ ہم رضا ربانی کی اس موقف کی حمایت کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ قائد اعظم اور علامہ اقبالؒ کے بعد ہمارے قومی ہیرو جنہوں نے دن رات ایک کرکے سود زیاں سے بے نیاز ہوکر وطن عزیز پاکستان کو جوہری اور میزائل قوت دے کر ناقابل تسخیر بنا دیا اور ہم قوم کے عظیم ہیرومحسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ان کے اس عظیم الشان قومی کارنامے کے عوض انہیں جو ”انعام“ اور ”مقام“ دے رہے ہیں کیا یہ زندہ قوم کے ہیرو کے شایان شان ہے؟ چوہدر ی شجاعت حسین وہ واحد سیاستدان ہیں جنہوںنے اپنی آپ بیتی “سچ تو یہ ہے “ میں جرات کے ساتھ واضح طور پر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اس ایک اور قربانی کا ذکر کیا ہے کہ انہوںنے ناکردہ گناہ کا الزام اپنے سر لے کر قوم کو بحران سے نکالا جو رنگیلے ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کی طوالت اور ڈالروں کی چمک کے باعث محسن پاکستان پر تھوپا۔ اس رنگیلے ڈکٹیٹر سے تو ڈی آئی جی پولیس( آپریشن )لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف بدرجہا بہتر ہیں کہ انہوں نے ملک و قوم کی خاطر شہید ہونے والے پولیس عہدیداروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ملک میں ایک نئی طرح ڈالی ہے اورپولیس کے ان شہدا کی یاد میں ایک یاد گار قائم کی ہے جس کا نہ تو کوئی واویلا کیا ہے اور نہ ہی پبلسٹی۔ اب وہی رنگیلا ڈکٹیٹر ہے جو در بدر ہوکر رہ گیا ہے ظاہر ہے آسمانوں میں بھی ایک قدرت موجود ہے جسے ہم رب عظیم کہتے ہیں اس کے ہاں انصاف اور مکافات عمل ہے جو کچھ اس رنگیلے ڈکٹیٹر نے محسن قوم و ملت سے کیا آج اس کی سزا بھگت رہا ہے پاکستانی قوم کو یاد ہے کہ کیونکہ یہ زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے کہ جب میاں برادران جلا وطنی کے ایام گزار رہے تھے تو میاں شہباز شریف پابندیوں کو توڑتے ہوئے جہاز پر پاکستان آئے مگر پرویز مشرف کے حکم پر انہیں پاکستان اترنے نہیں دیا گیا اور آج اس کے برعکس جب کہ مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور اس کے وزیر داخلہ احسن اقبال کے اس واضح اعلان کے بعد کہ پرویز مشر ف پاکستان آئیں ہم انہیں مکمل تحفظ اور سکیورٹی فراہم کریں گے مگر بزدل ڈکٹیٹر نہیں آرہا کیونکہ اس کے خلاف ملک میں ٹھوس بنیادوں پر قائم مقدمات اس کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔ یہ بھی مکافات عمل کا ہی حصہ ہے۔ ایک مثل مشہور ہے ”لاکھوں میں ایک“ مگر عبدالقدیر خان نے ایک اور مثل کو جنم دیا کہ ”اربوں میں ایک“ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ دنیا کی کل آبادی لگ بھگ ساڑھے سات ارب نفوس پر مشتمل ہے اور دنیا میں سات ہی جوہری طاقتیں ہیں جن میں ایک پاکستان بھی ہے اور یوں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے لازوال اور بے مثال کارنامے کی بدولت ”اربوں میں ایک ہیں“
ہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی عظیم خدمات کے پیش نظر حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ لاہو راسلام آباد موٹر وے کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام سے منسوب کریں اور ساتھ ہی ہم اپنی جری اور بہادر افواج کے ارباب اختیار سے گزارش کریں گے کہ وہ مستقبل میں تیار ہونے والے کسی بھی میزائل کا نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے منسوب کریںتاکہ ان زندگی میں ہی ان کی شاندار خدمات کا حق ادا کیا جائے۔