خاندانِ عباسیہ کا خوش نصیب چشم و چراغ!
بنوعباس کو عرب تاریخ میں خصوصی اہمیت رہی ہے۔ اس خاندان نے قریباً پانچ سو سال تک حکومت کی۔ 820 ھ تک عباسی خلیفہ کو دُنیا کا طاقتور ترین حکمران گردانا جاتا تھا۔ دُنیا کے بادشاہ اس کا نام سُن کر لرزہ براندام ہوتے تھے۔ عربوں نے قیصر و کسریٰ کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔ قسطنطنیہ سے خراج وصول کرتے تھے۔ ویسے تو پہلے سو سال میں کئی زبردست حکمران آئے لیکن ہارون رشید ستاروں کے جُھرمٹ میں روشن سورج کی مانند تھا۔ ایسا طمطراق‘ اتنی سج دھج اور شان و شوکت کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ وسیع و عریض محلات میں سترہ ہزار زربفت اور اطلس و کمخواب کے پردے لگے تھے۔ سونے کی تاروں سے مزین دربار میں ہزاروں حبشی غلام نیزے تانے کھڑے رہتے۔ سینکڑوں شیر ببّرنر پنجروں میں دھاڑتے۔ دربار کے عین وسط میں برگد نما سونے کا درخت تھا جس کے پتے زمرد سے بنے ہوئے تھے۔ درخت پر سینکڑوں پرندے جن کی آنکھوں میں بلور کی بجائے ہیرے ٹکے ہوتے ! مکینکی انداز میں چہچہاتے۔ فرانس کے بادشاہ شارلیمان کے سفیروں پر اس قدر ہیبت طاری ہوتی کہ اُن کے اوسان خطا ہو گئے۔ قسطنطنیہ کا حاکم نائیس فورس جسے عرب مو¿رخ نِکفر کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہارون کو للکارنے کی جرا¿ت کر بیٹھا اس نے ایک ہتک آمیز خط لکھا جس کی شروعات کچھ اس طرح تھیں۔ ”شہنشاہ روم نائیس فورس کی جانب سے۔ عرب حکمران ہارون کی طرف! تم مجھ سے پہلے کی حکمران آرکینی کی نسوانی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے خراج وصول کرتے رہے ہو۔ تمہیں پتہ ہونا چاہئے کہ اب ایک جرنیل روم کا حکمران ہے جو کچھ اب تک وصول کر چکے ہو! وہ سب واپس کرو اور آئندہ کیلئے خراج دینے کا وعدہ کرو! وگرنہ ! تمہارے اور میرے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی! کہتے ہیں کہ خط پڑھ کر ہارون غصے سے تھرتھر کانپنے لگا۔ خط اسکے ہاتھ سے گر گیا۔ مہر بلب درباریوں نے کھسک جانے میں عافیت سمجھی۔
جواباً ہارون نے خط کی پُشت پر لکھا امیر المومنین ہارون الرشید کی طرف سے روم کے کتے نائیس فورس کی طرف میں نے تمہارا خط پڑھا ہے جو کچھ ہونے والا ہے وہ تو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ سُننے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ خط پہنچتے ہی ہارون بھی پہنچ گیا۔اسے ایک ذِلت آمیز شکست دے کر معزول کر دیا اور دُگناخراج لیکر لوٹا۔
سلطنت کا بانی ابوالعباس تھا۔ وہ 749ھ میں خلیفہ بنا۔ جب اسکے چچا عبداللہ ابن علی نے آخری اموی حکمران مروان ثانی کو شکست دی تو تمام رکاوٹیں دُور ہو گئیں۔ مروان ایک بہادر انسان تھا اور دنیائے عرب میں الحمار کے نام سے مشہور تھا۔ (عربی میں حمار گدھے کو بولتے ہیں جو بُردباری اور تحمل کی نشانی ہے) جب بُرا وقت آتا ہے تو تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اسکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اسکی موت کے ساتھ خاندان بنو اُمیّہ کا خاتمہ ہو گیا۔ عبداللہ ابن علی ایک سفاک انسان تھا۔ اس نے بطورحفظِ ماتقدم اسی اموی شہزادوں کو عام معافی کا اعلان کر کے دعوت پر بُلایا اور کھانے کے دوران سب کو مروا ڈالا۔ چمڑے کی ایک بہت بڑی چادر اُن پر بچھا دی گئی۔ عبداللہ اور اس کے ساتھیوں نے آہوں اور ہچکیوں کے درمیان ”دعوت کے مزے“ لُوٹے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہارون کے سو سال بعد ہی عباسیوں کی طاقت سُکڑ اور سمٹ کر دارالخلافہ تک محدود ہو گئی۔ بالکل اسی طرح جیسے مغلوں کے ساتھ ہوا تھا۔ شاہِ عالم! دلی تا پالم 1258ءمیں سلطنت کا ہی عملاً خاتمہ ہو گیا۔ ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ عباسی خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر گئے۔ جس کا جہاں سینگ سمایا وہ اُدھر نکل گیا۔ 1366ءمیں امیر سلطان احمد دوم مصر سے بلوچستان کے راستے سندھ پہنچا۔ ریاست بہاول پور ایک طویل عرصہ تک عباسی خاندان کے تسلط میں رہی۔ اسکی بُنیاد امیر سلطان کے پوتے بہاول خان کے بیٹے چنی خان نے ڈالی۔ اُسے یہ علاقہ مغلوں سے انعام میں ملا۔ ریاست بہاول پور کا شمار امیر ریاستوں میں ہوتا تھا۔ نہری پانی آنے سے زمینیں سونا اُگلنے لگیں نواب صادق چہارم نے تین محل تو بہاولپور میں بنائے اور چوتھا احمد پور شرقیہ کے قریب صادق گڑھ میں اپنی خاص رہائش کیلئے بنوایا۔ انکی امارت کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اس خاندان کا ایک فرد سر صادق محمد خان پنجم 50 ءکے لگ بھگ حج کےلئے گیا تو شاہ عبدالعزیز اسے ملنے آیا۔ کہنے لگا۔ میرے پاس کوئی اچھی گاڑی نہیں ہے اپنی رولز رائیس مجھے دے دو۔ نواب جو کچھ سمندری جہاز میں لیکر گیا تھا اسے دے آیا۔ اس وقت تک تیل دریافت نہیں ہوا تھا۔ اب حالات یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔ ابن سعود کے خاندان کے پاس جہازوں کا پورا فلیٹ ہے اور نواب صلاح الدین عباسی! سیاسی اعتبار سے! ایک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح اپنی اکلوتی کار میں اکیلا سفر کرتا ہے۔ اس کا حریف طارق بشیر چیمہ تو بہت سی گوہر افشانیاں کرتا ہے لیکن نہایت محتاط انداز میں انہیں TIGHT FISTED ہی کہا جا سکتا ہے جو اِن کا حق ہے۔ میں بہاولپور میں ڈپٹی کمشنر اور بعد میں کمشنر رہا۔ نواب صاحب اپنی جائیداد کے سلسلے میں کبھی کبھی شرفِ ملاقات بخشنے آ جاتے۔ ان سے ملاقات اگر اعزاز تھا تو باتیں سُن کر محظوظ بھی ہوتا۔
تا مرد سُخن نہ گفتہ باشد
عیب و ہُنرش نہفتہ باشد
اس تناظر میں جناب شاہد خاقان عباسی کا ذکر مقصود ہے۔ بدقسمتی سے میں ذاتی طور پر ان سے واقفیت نہیں رکھتا۔ مجھے علم نہیں کہ عباسی خاندان کی اس لڑی کا پنجاب میں ورود کب ہوا۔ کب انہوں نے تجارت شروع کی‘ دولت کے انبار کیسے لگے؟ یقیناً ان کے بزرگوں نے محنت کی ہو گی۔ انہوں نے میراث پدر کو آگے بڑھایا ہو گا۔ لیکن جو چیز انہیں خاندان میں منفرد اور ممتاز کرتی ہے وہ ان کا وزیراعظم بننا ہے۔ گویا کھوئی ہوئی خاندانی عظمت کو انہوں نے بحال کیا ہے۔ گو وزیراعظم بادشاہ نہیں ہوتا ، اسکے ہاتھ قانون اور آئینی ضابطوں کی وجہ سے بندھے ہوتے ہیں لیکن جس شخص کی جانشینی انہیں مقدر ہوئی ہے اس کا رتبہ ، طمطراق ، روش اور طریق شاہوں سے کم نہیں تھا۔ بنیادی طور پر یہ درویش منش انسان ہیں۔ کسر نفسی کا یہ عالم ہے کہ اب تک اس منصب جلیلہ کو عطیہ خداوندی نہیں سمجھتے، میاں صاحب کی دین گردانتے ہیں، وقتاً فوقتاً یہ بیان داغ دیتے ہیں۔ اصل وزیراعظم تو نواز شریف ہے۔ میں نے تو یہ بوجھ امانتاً اُٹھایا ہوا ہے۔ اس اظہار پر عمران خان نے انہیںکٹھ پُتلی وزیراعظم کہا ہے لیکن اس طنز و تشنیع کا انہوں نے کوئی خاص اثر قبول نہیںکیا کیونکہ یہ دریوزہِ گر آتش بیگانہ کے معانی اور مفاہیم سے بخوبی آشنا ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ جس نے بنایا ہے وہ اس وقت تک ہٹانے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔ میاں صاحب بھی بڑے کائیاں ہیں۔ تاریخ شاید انہوں نے خود نہ پڑھی ہو لیکن مشیروں کی پوری کھیپ ان کے دربار میں حاضر رہتی ہے۔ ان کا متفقہ مشورہ ہے DON,T GIVE HIM A BREATHING SPACE KEEP HIM ON THE TENTER HOOK,S پیشتر اسکے کہ عباسی صاحب کا سبو ٹوٹ کرانہیں سرمست کر جائے اقتدار کا چسکا اس کو دوام بخشنے کا متقاضی ہو، ان کو اپنی حیثیت اور مقام یادکرواتے رہیں۔ انہوں نے دبے لفظوں میں جب میاں صاحب کوعدلیہ کے معاملے میں محتاط رہنے کا مشورہ دیا اور عزیزان طلال، دانیال کو غیر مشروط معافی مانگنے کےلئے کہا تو جاتی امرا سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ انہیں چند سخت بیان دینے کی ہدایت کی گئی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق عباسی نے اسمبلی میں ’HARD HITTING ‘ تقریر کی۔ میاں صاحب کے خلاف عدالتی فیصلے کو تاریخ کے کوڑا دان میں پھینکنے کا عندیہ دیا اور طلال، دانیال کو دیا گیا مفت مشورہ بھی واپس لے لیا۔ جو لوگ تاریخ کا شعور رکھتے ہیں انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اقتدار کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ (KING SHIP KNOWS NO KINSHIP) یہ ایسی ظالم چیز ہے جو بھائی سے بھائی کو مرواتی ہے۔ باپ بیٹے میں تصادم کرواتی ہے۔ خون بہرحال خون ہے لیکن جب یہ ہوس و اقتدارکی تنگناﺅں سے گزرتا ہے تو خون نہیںرہتا گدلا پانی بن جاتا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔ لہٰذا عباسی صاحب جتنے بھی مگرمچھ کے آنسو بہائیں، میاں صاحب کے جانے کا سوگ منائیں، تاریخی حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف کی رخصتی کا سب سے زیادہ فائدہ انہیں ہوا ہے۔ منفعت پر انسان قدرتی طور پر خوش ہوتا ہے، رنجور نہیں ہو سکتا۔ اب جبکہ اقتدار کے دن گھٹتے جا رہے ہیں، وزارتِ عظمیٰ دوبارہ ملنے کے بظاہر کوئی امکانات نہیں ہیں۔ کوئی وزارت لینا کسرِ شان ہو گاتو حضرت پر بوکھلاہٹ کے آثار کچھ واضح ہونے لگے ہیں۔ پچھلے دنوں سینٹ الیکشن پر بڑا عجیب سا بیان دےدیا ہے۔ فرماتے ہیں چیئرمین سینٹ الیکشن پیسے کے زور پر بنا ہے جو کہ غیر جمہوری رویہ ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی متفقہ شخص بطور چیئرمین لایا جائے۔ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے۔
سب کو علم ہے کہ سنجرانی مالدار شخص نہیں ہے۔ اگر ممبران نے رقم لیکر بکنا تھا تو آپ اور آپکے مربی سے زیادہ کون مالدار ہے۔ بھاﺅ تاﺅ کے جو گُر آپ کا گروہ جانتا ہے وہ اس بیچارے کو کہاں آتے ہیں۔ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیںکہ ’ن‘ لیگ پیسے کی سیاست نہیںکرتی اور دیگر پارٹیاں ازقسم تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی زر کے زور پر ممبران خریدتی ہیں تو اس سے بڑا لطیفہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کا اشارہ کسی اور طرف ہے تو کُھل کر بات کریں۔ قائداعظم ثانی بننے کے لئے قائدجتنی جرا¿ت اور صداقت بھی ضروری ہے! اسی بات کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اگر سنجرانی نے آپ کے الیکشن اور اسپیکر قومی اسمبلی پر سوال اُٹھا دیا اورافہام و تفہیم سے وزیراعظم بنانے کا مطالبہ کر دیا تو پھر آپ کا ردعمل کیا ہو گا۔ چیئرمین سینٹ کے پاس کونسا ایسا اختیار ہے جو جمہوری عمل کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس شوروشین اور واویلا کے پیچھے جوحقیقت ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ انپے محبوب لیڈر کو قانون سازی کے ذریعے واپس لانے کی کوششوں کو یقیناً زک پہنچی ہے۔ تحریک انصاف اور زرداری نے مل کر اس کو ناکام بنایا ہے۔ یہی آپ کا المیہ ہے!