منگل ‘ 7 شعبان المعظم‘ 1439 ھ ‘ 24 اپریل 2018ء
شہباز شریف کراچی والوں کو لالی پاپ سے بہلا نہیں سکتے: فاروق ستار
تو جناب آپ لوگ جو عرصہ دراز سے کراچی پر قابض رہے آپ نے بھلا کون سی ٹافیاں دے کر کراچی والوں کو بہلایا تھا۔ پورے کراچی کو گٹکا‘ قوام اور تمباکو والا پان کھلا کھلا کر منہ کھولنے تک سے معذور کر دیا۔ آپکو اچانک شہباز شریف کے دورہ کراچی سے پریشانی کیوں۔ آپ کی ایم کیو ایم تو اب تقریباً فارغ البال ہو چکی بلکہ اس کے بچے بھی بہادر آباد جا کر آباد ہو چکے ہیں۔ اب آپ کو پیپلز پارٹی والے بھی لفٹ نہیں کرا رہے بلکہ اب تو وہ بھی آپ کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ بلاول زرداری جیسا نوآموز رہنما بھی بڑے دھڑلے سے کہہ رہا ہے اب کراچی ہم فتح کرینگے۔ پاک سرزمین پارٹی والے آپ سے آپکے تمام ایم این ایز اور ایم پی اے چھین کر لے گئے۔ کراچی کا سارا مینڈیٹ تو انکے ساتھ ہے۔ پھر آپ کن کےلئے لولی پاپ مانگ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ایک گرفتار دہشت گرد لینڈ مافیا کے سرغنہ نے دوران تفتیش یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ کراچی میں زمینوں پر قبضہ ایم کیو ایم یعنی آپکی جماعت کے رہنما¶ں کے اشاروں پر کرتے تھے اور انہیں ان کا حصہ بھی پہنچاتے تھے۔کراچی پورے پاکستان کا آئینہ ہے جو چاہے کراچی آئے سیاست کرے اس کا حق ہے اس لئے فاروق ستار کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
٭....٭....٭....٭
امریکہ: جیل کا 9 سال تک کھانا چرانے والے اہلکار کو 50 سال قید۔
یہ تو زبردست فیصلہ آیا ہے کھانا چوری کرنے والوں کےلئے۔ اب اگر کوئی عدالت ہماری پیاری راج دلاری پی آئی اے سے کھانا پینا‘ برتن‘ تولئے‘ صابن‘ ٹشو چمچے کپ وغیرہ چرانے والوں پر بھی گرفت کرے تو مزہ آ جائے۔ صرف پی آئی اے ہی کیا ہماری سرکاری ریلوے میں بھی وہ کیا دور تھا جب تولیہ اور صابن بھی دستیاب ہوتا تھا۔ اب تو وہ بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ وہ بھی لگتا ہے چرانے والے چرا لے جاتے ہیں۔ سرکاری اداروں سے اشیا چرانا پہلے شاید فن تھا اب تو باقاعدہ پیشے کی شکل اختیار کر گیا ہے کیونکہ کوئی روک ٹوک نہیں پوچھنے والا نہیں۔ اب ذرا ہماری جیلوں پر بھی نظر ڈالیں تو آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ وہاں کھانے کے نام پر ملنے والی تمام اشیا حسب مراتب جیل کے عملے میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ قیدیوں کو پتلی بدمزہ دال‘ شوربا اور نیم کچی پکی خراب سبزی اور بھوسہ ملے آٹے کی روٹی ہی دی جاتی ہے جبکہ کھانے کے چارٹ میں سبزی‘ گوشت‘ مرغی‘ سبزیاں‘ سلاد اور نجانے کیا کیا خرافات درج ہوتی ہیں جو ماہانہ خریدی جاتی ہیں۔ یہ تو بھلا ہو مخیر حضرات اور کچھ نجی کھانے پکانے کے کاروبار والوں کا بیکریوں اور ہوٹلوں کا جو ہسپتالوں میں مریضوں کو فی سبیل اللہ فری کھانا مہیا کرتے ہیں ورنہ وہاں بھی قیدیوں جیسا کھانا ہی مریضوں کا نصیب ہوتا تھا۔
٭....٭....٭....٭
سراج الحق تنقید کے ساتھ اقتدار سے چمٹے ہیں حکومت کیوں نہیں چھوڑی: فواد چودھری
ساجھے کی ہنڈیا نجانے کیوں ہمیشہ چوراہے ہی میں پھوٹتی ہے۔ سینٹ کے الیکشن نے بہت سے پارسائی کا دعویٰ کرنے والے صاف شفاف نظام کے داعیوں کے چہرے سے بھی نقاب الٹ دیئے۔ یہ نہ بکنے نہ جھکنے کا دعویٰ کرنے والے بھی نجی محفلوں میں اوطاقوں حجروں اور خلوت کدوں میں بکتے اور جھکتے نظر آئے۔ ایک جماعت کا راستہ روکنے کے لئے شکاری سے لے کر کھلاڑی تک نے خوب ریٹ لگایا‘ مال کمایا اور ووٹ بیچے۔ عوام نے پہلے تو اسے ذاتی یا نجی خرید و فروخت ہی سمجھا اور معاشرے کے غلط رویوں میں سے ایک رویہ سمجھ کر خاموش رہے۔ بڑے بڑے پاکباز بھی اپنی جماعت کے ممبران کے نہ بکنے کی قسمیں کھاتے رہے۔ پھر اچانک سراج الحق صاحب نے زبان کیا کھولی کفن پھاڑ کر بولے۔تحریک انصاف کی قیادت نے کہا تھا اوپر سے حکم ہے فلاں فلاں کو ووٹ دو۔ بس پھر کیا تھا خود اپنی جماعت کے 20 ارکان پر بکا¶ مال کا لیبل لگانے والوں نے بھی توپوں کے منہ کھول دیئے۔حیرت کی بات ہے اس بازار سیاست میں جو بھی دیکھو گنگا نہایا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر اندر سے سب کے ہاتھ بہتی گنگا سے دھلے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے 20 سال محنت کے بعد جو ٹیم تیار کی‘ خیبر پی کے میں حکومت بنائی اس میں سے آدھی ٹیم کرپٹ نکلی۔ باقی کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں شاید انہیں موقع نہیں ملا۔ جماعت اسلامی والوں کو بھی تو اقتدار کا چسکا ہے۔ وہ ہر صورت صاحب اقتدار رہنا چاہتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
ماورائے عدالت قتل اور گمشدہ افراد کےلئے کمشن بنایا جائے: پشتون تحفظ موومنٹ
اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں مگر سوشل میڈیا پر پشتون تحفظ موومنٹ کے چمچوں چانٹوں نے کافی دنوں سے ایک طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا تھا کہ لاہور میں اسکے کارکنوں کو پولیس پکڑ کر لے جا رہی ہے۔ موچی گیٹ میں پانی چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ وہاں ہمارا جلسہ نہ ہو سکے۔ اسکے ساتھ موچی گیٹ کی تصویر بھی لگائی تھی جہاں ایک کونے میں سیوریج کا پانی پھیلا ہوا تھا باقی تین چوتھائی گرا¶نڈ خشک تھی جہاں بچے کرکٹ وغیرہ کھیل رہے تھے۔ یوں پانی چھوڑنے کی کہانی تصویر کی زبانی غلط ثابت ہوئی۔ گرفتاریوں کی خبر بھی افواہ نکلی۔ اسکے باوجود ہمارے سیاستدان بھی جو کان نہیں دیکھتے کوے کے پیچھے بھاگتے ہیں انہوں نے بھی اس حوالے سے حکومت پنجاب کے خوب لتے لئے۔ مگر سب نے دیکھا کہ گزشتہ روز پشتون تحفظ موومنٹ والوں نے بعض انسانی حقوق کی تنظیموں‘ اقلیتی تنظیموں اور لبرل عناصر کے ساتھ مل کر جلسہ کر لیا کسی نے روکا تک نہیں یوں اس تحریک کی طرف سے ظلم و جبر کے دعو¶ں کی قلعی کھل گئی۔ یہ تحریک جو نقیب اللہ کے قاتلوں کی گرفتاری کےلئے اٹھی تھی اس نے حساس اداروں اور دہشت گردی میں مصروف عسکری قوتوں کے خلاف نہایت مہارت سے مغوی افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل کے نام سے تحریک شروع کر دی۔ اس تحریک میں طالبان اور داعش کے پاکستان میں پٹے ہوئے مہرے بھی داخل ہیں‘ بھارت اور افغانستان کے ایجنٹ بھی۔ یہ کوئی الزام نہیں۔ ورنہ جس تحریک کی حمایت افغان صدر کرے بھارتی سیاستدان اور وزیر کریں اسکی پاکستان دشمن تحریک ہونے میں کیا کسر رہ جاتی ہے۔ یہ لال ٹوپی والوں کا نیا ڈرامہ ہے جو یہ افغانی کوچی لال ٹوپی پہن کر پاکستانی اداروں کےخلاف نکلے ہیں۔ان کو واپس افغانستان بھیجنے کا وقت آگیا ہے۔ ماورائے عدالت قتل کے خاتمہ اور گمشدہ افراد کی تلاش کے حق میں پورا پاکستان یک آواز ہے مگر اس کی آڑ میں دہشت گردوں کیلئے نرمی پیدا نہیں کی جا سکتی۔