بھارت لیز پر لی گئی بندرگاہ کو پاکستان کیخلاف مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر سکتا ہے
ایران نے چاہ بہار کو گوادر کی معاون پورٹ قرار دیدیا‘ ایک دوسرے سے مربوط کرنے کا عزم
پاکستان میں ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست نے کہا ہے کہ گوادر اور چاہ بہار کی بندرگاہوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کیلئے کام جلد شروع ہو جائیگا۔ گوادر اور چاہ بہار ایک دوسرے کی حریف نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کی معاونت کریں گی۔ ”وقت نیوز“ کے پروگرام ایمبیسی روڈ میں انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان میں ایران کے سفیر نے کہا کہ کچھ مخالف قوتیں یہ پروپیگنڈہ کر رہی ہیں کہ چاہ بہار گوادر کے مقابلے کیلئے تعمیر کی جا رہی ہے۔ یہ پروپیگنڈہ سراسر بے بنیاد ہے۔ ایران کے سفیر نے بتایا کہ ایران گوادر کیلئے پاکستان کو بجلی فراہم کر رہا ہے۔ ایرانی سفیر نے انکشاف کیا کہ پاکستان اور ایران کا ایک مشترکہ وفد چاہ بہار اور گوادر کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کیلئے دونوں بندرگاہوں کا دورہ کریگا۔ پاک ایران تجارت کے بارے میں اچھی خبر دیتے ہوئے ایران کے سفیر نے کہا کہ گزشتہ دو برس میں پاکستان اور ایران کی تجارت 500 ملین ڈالر سے بڑھ کر ایک ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت میں مزید وسعت پیدا ہو سکتی ہے۔ ایران پاکستان سے چاول‘ گوشت اور پھل درآمد کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ پاک ایران بارڈر پر تشدد کے واقعات کے خاتمے کیلئے باڑ لگانے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے ایرانی سفیر نے کہا کہ پاکستان اور ایران کی سرحد بہت دشوار اور کٹی پھٹی ہے اس پر باڑ لگانا بہت مہنگا کام ہے۔ پاکستان اور ایران دونوں نے پاک ایران سرحد کو امن اور دوستی کی سرحد بنانے کےلئے کام شروع کر دیا ہے۔ ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے کہا کہ بعض تیسرے فریق ایسے ہیں جو پاکستان اور ایران کے تعلقات کو بہتر نہیں ہونے دیتے۔ افغانستان میں امن کے قیام کیلئے ایرانی سفیر نے پاکستان اور ایران کے کردار کو اہم قرار دیا اور کہا کہ افغان حکومت اور وہاں کی اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔
پاک ایران خوشگوار تعلقات کی ایک تاریخ ہے‘ پاکستان معرض وجود میں آیا تو سب سے پہلے ایران نے اسے تسلیم کیا تھا۔ اسکے بعد ہر کڑے وقت میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے۔ آرسی ڈی معاہدہ پاکستان ایران ترکی اخوت کی ایک مثال ہے۔ پاک ایران تعلقات میں گہرائی پڑوسی مسلم برادر ممالک ہونے کے باعث بھی ہے۔ عالمی قوتوں کے اپنے مفادات ہیں‘ انکے حصول کیلئے وہ کہیں اپنے ہمنوا ممالک کو نوازتی اور کہیں مخالف ممالک کو نقصان سے دوچار کرنے میں کوشاں ہوتی ہیں۔ پاک ایران تعلقات عموماً پرجوش رہے ہیں تاہم کبھی ان میں سردمہری بھی آئی جو وقتی اور عارضی تھی۔ جنداللہ کی دہشت گردی کے دور میں ایران نے پاکستان پر اسکی سپورٹ کے الزامات ضرور لگائے‘ اس گروپ کو کیفر کردار تک پہنچانے میں بھی پاکستان نے کردار ادا کیا۔ مالک ریگی‘ اسکے بھائی اور ساتھیوں کو پھانسی کے بعد ایران میں دہشت گردی کا خاتمہ اور پاک ایران تعلقات پھر معمول پر آگئے۔
ایران کی طرف سے اخوت بھائی چارے کا مظاہرہ نسبتاً زیادہ دیکھا گیا ہے۔ گوادر میں آج بھی ایران کی طرف سے بجلی کی فراہمی جاری ہے۔ اس نے پاکستان کو انرجی بحران سے نکالنے کیلئے متعدد بار بجلی اور سستے تیل کی فراہمی کی پیشکش کی۔ گیس پائپ لائن معاہدہ پر ایران کی طرف سے عمل ہوچکا۔ اس نے پاکستان کے اندر بھی پائپ لائن کی تعمیر کی پیشکش کی ہے۔ معاہدے پر مقررہ مدت تک عمل نہ کرنیوالے فریق کو روزانہ کی بنیاد پر جرمانے کا اسی معاہدے میں مستوجب قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان نے امریکی دباﺅ پر اس معاہدے کو مقررہ مدت میں مکمل نہیں کیا۔ ایران جرمانہ طلب کرنے میں حق بجانب ہے مگر اس نے اس کا تقاضا نہیں کیا تاہم اسکی طرف سے امریکی پابندیاں نرم ہونے کے بعد گیس پائپ لائن کی تکمیل پر زور دیا جارہا ہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی اور معاہدوں کی تکمیل کی راہ میں صرف ایک امریکہ ہی رکاوٹ نہیں اور بھی عوامل کارفرما ہیں۔ اس میں ایران عرب تنازعات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسے ہماری خارجہ پالیسی کی کمزوری ہی کہا جا سکتا ہے کہ بیرونی دباﺅ پر اپنے بہترین مفادات پر بھی کمپرومائز کرلیتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ معاہدات پر بوجوہ تاخیر ضرور کی مگر تعمیر و تکمیل کیلئے انکار نہیں کیا۔ یہ معاہدے کسی وقت بھی پایہ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں۔
ایران نے ہمیشہ پاکستان کیلئے فراخدلی کا مظاہرہ کیا مگر اب بھارت کے ساتھ ایران کی قربتیں پاکستان کیلئے تشویش کا باعث ہیں۔ ایران کے گوادر اور چاہ بہار پورٹس کو ایک دوسرے کا معاون قرار دینے کے دعوے پر شک و شبہ کی گنجائش تو نہیں ہونی چاہیے مگر کئی سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔ ایران کی طرح افغانستان بھی پاکستان کا برادر مسلم ملک ہے مگر اسکی طرف سے پاکستان کیلئے کبھی مثبت رویے کا اظہار نہیں کیا گیا۔ افغان حکمران امریکہ کی کٹھ پتلی تو نائن الیون کے بعد بنے ہیں‘ بھارت کی کاسہ لیسی اور حاشیہ برداری قیام پاکستان کے بعد سے ہی کررہے ہیں۔ پاکستان جیسے ایک مسلم ریاست کے پڑوس میں جنم لینے پر افغانستان کو تو خوش ہونا چاہیے تھا‘ اس نے اپنے بھارتی آقاﺅں کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کی اقوام متحدہ میں مخالفت کی۔ دو سال قبل ایران بھارت افغانستان نے چاہ بہار بندرگاہ کیلئے مشترکہ سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے بعد تینوں ممالک 23 مئی کو یوم چاہ بہار کے طور مناتے ہیں۔ اسی روز تہران میں نریندر مودی اور حسن روحانی کے مابین 20 کروڑ کی ابتدائی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس موقع پر بھارتی وزیراعظم نے بندرگاہ اور فری ٹریڈ زون بنانے کیلئے 50 کروڑ ڈالر یعنی پچاس ارب روپے سے زائد ادا کرنے کا اعلان کیا۔ یہ دو سال قبل کے اعلانات اور معاہدے تھے۔ اب رواں سال فروری میں ٹرائیکا دہلی میں اکٹھا ہوا۔ جہاں مودی اور ایرانی صدر روحانی نے چاہ بہار پورٹ 18 ماہ کی لیز پر بھارت کو دینے کے معاہدے پر دستخط کئے۔ اشرف غنی 2016ءکو تہران اور اب دو ماہ قبل دہلی میں مودی کی سپورٹ کیلئے موجود تھے۔ دہلی معاہدے کے مطابق آج چاہ بہار بندرگاہ بھارت کے پاس لیز پر ہے۔
بھارت کیلئے پاکستان ناقابل برداشت اور وہ اسے صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔ وہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرتا ہے۔ اس کیلئے افغان انتظامیہ اپنی اوقات او راستعداد سے بڑھ کر ساتھ دیتی چلی آرہی ہے۔ پاکستان بھارت کے اپنے ہاں مداخلت اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوتوں کے ڈوژیئر امریکہ اور اقوام متحدہ کے حوالے کرچکا ہے۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے بھارت نہ صرف مواقع کی تلاش میں رہتا ہے بلکہ ایسے مواقع پیدا کرنے کی سازشیں بھی کرتا آیا ہے۔ ایران نے خواہ کتنی بھی نیک نیتی سے بھارت کو چاہ بہار پورٹ میں شراکت دار بنایا ہو مگر اس نے ایران کی سرزمین اور چاہ بہار پورٹ کی سائٹ کو بھی پاکستان کیخلاف مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا۔ جاسوسی کی تاریخ کا خطرناک ترین جاسوس کلبھوشن یادیو اور اس کا نیٹ ورک ایران ہی سے آپریٹ ہوتا رہا ہے جس کا کلبھوشن خود اپنے اقبالی بیان میں اعتراف کر چکا ہے۔
چاہ بہار رپورٹ کی تعمیر پاکستان کے ایسے مکار اور عیار دشمن بھارت کے پاس ہوگی تو وہ اس پورٹ کو اپنے مذموم اور بھیانک مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے ہرگز گریز نہیں کریگا جس کے لامحالہ اثرات پاکستان اور ایران تعلقات پر پڑیں گے۔ ایران سی پیک میں شمولیت کیلئے دلچسپی رکھتا ہے جبکہ بھارت اسکی شدید مخالفت کرتے ہوئے اس معاہدے کے خاتمے کیلئے سرگرداں ہے۔ سی پیک کیلئے گوادر پورٹ کا مرکزی کردار ہے۔ اسکے قریب تر چاہ بہار بندرگاہ ایک بہترین معاون ہوسکتی ہے۔ ایران اس حوالے سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان پر کہیں زیادہ اعتماد کرسکتا ہے۔ ایرانی سفیر مہدی ہنر مند دوست کہتے ہیں‘ بعض تیسرے فریق ایسے ہیں جو پاک ایران تعلقات بہتر نہیں ہونے دیتے۔ ان کا اشارہ کسی اور طرف ہو سکتا ہے مگر بھارت کو بھی تیسرے فریق میں شامل کیا جا سکتا ہے جس کا پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغانستان سے نیٹ ورک آپریٹ ہوتا ہے۔