گو کہ چوہدری شجاعت حسین کا تعلق گجرات کی جٹ برادی سے ہے وہ سیاست تو گجرات میں کرتے ہیں لیکن انہوں نے لاہور ، گجرات اور اسلام آباد میں تین’’سیاسی ڈیرے‘‘ آباد کر رکھے ہیں جب تک چوہدری ظہور الٰہی بقید حیات تھے 99 ویسٹریج راولپنڈی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا یہیں سے ملک کی سیاسی تاریخ کی بڑی بڑی تحاریک چلائی گئیں۔ چوہدری ظہورالٰہی نے میدان سیاست میں استقلا ل اور جرأت سے نام پیدا کیا تھا۔ ان کے پاس کونسل مسلم لیگ میں کوئی بڑا عہدہ نہیں تھا لیکن وہ نہ صرف مسلم لیگ کے کرتا دھرتا تھے بلکہ تحریکوں کے روح رواں رہے۔ چوہدری شجاعت حسین نے اپنے والد کی شاندار روایات کو زندہ رکھا ہے، وہ ایک اعلیٰ درجے کے مہمان نواز تھے ان کے دستر خوان سے کبھی کوئی مہمان تواضع کے بغیر واپس نہیںگیا چوہدری شجاعت حسین کی مہمان نواز ی ’’روٹی شوٹی کھا کے جائو‘‘ اور صلح جوئی ’’مٹی پائو‘‘ نے ضرب المثل کی شکل اختیار کر لی ہے جب تک وہ میاں نواز شریف کے حلیف رہے ان کو پارٹی میں غیر معمولی اہمیت حاصل رہی لیکن جب ان کی راہیں جدا ہو گئیں، وہ مسلم لیگ (ن) کی کوکھ سے جنم لینے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ بن گئے ۔ الٰہی بخش سومرو کو اس فیصلے سے آگاہ بھی کر دیا لیکن اگلے روز محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ محمد خان جونیجو وزیر اعظم تو بن گئے لیکن ان کی جنرل ضیا الحق سے زیادہ دیر نہ بنی جس کی وجہ سے ان کی حکومت ختم کر دی گئی چوہدری صاحب نے بے نظیر بھٹو کا جلاوطنی سے واپسی کے بعد مینار پاکستان پر ہونے والا تاریخی جلسہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سانحہ اوجڑی کیمپ میں راول پنڈی اور اسلام آباد کے ایک ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ انہوں نے اس دور میں بھی میاں نواز شریف کی وعدہ خلافیوں کا ذکر کیا ہے۔ انہیں الیکشن میں ہروانے کے لئے تمام ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ انہوں نے بے نظیر حکومت کی برطرفی کا پورا قصہ بیان کیا ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت میں آصف علی زرداری اور بینظیر بھٹو کو ایک ہی ریسٹ ہائوس میں رکھنے پر صدر غلام اسحٰق نے بہت بُرا منایا اور چوہدری شجاعت حسین سے کہا ’’چوہدری صاحب! یہ آپ نے ان دونوں کا ’ہنی مون پروگرام ‘ کب سے شروع کروا رکھا ہے۔ ریسٹ ہائوس میں صرف محترمہ بے نظیر رہیں گی ۔آصف علی زرداری کو فوری طور پر اڈیالہ جیل منتقل کر دیں۔ میرے اصرار پر صدرمملکت غلام اسحقٰ نے آصف علی زرداری کو اڈیالہ جیل بھجوانے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ چوہدری شجاعت حسین نے بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کو ’’مشکلات اور قیدو بند‘‘ کے عہد سے عبارت کیا ہے۔ اڈیالہ جیل کی قید و بند کے شب و روز بیان کئے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں حاجی نواز کھوکھر کا خاص طور پر ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے گھر سے سب کے لئے کھانا آتا تھا جب کہ حمزہ شہباز ہر روز اپنی پسند کی ڈش کے لئے سیٹھ اشرف کو چٹ دیا کرتے تھے۔ انہوں نے اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈ نٹ ایوب کا ذکر کیا ہے جنہوں نے متعدد سیاست دانوں کے ساتھ بڑا وقت گذارا ان کا کہنا ہے کہ خان عبدالولی خان انتہائی پر سکون طریقے سے قید کاٹتے تھے۔ 12اکتوبر1999ء کے ’’پرویزی مارشل لاء ‘‘کے بعد میاں نواز شریف نے بھی اسی کوٹھڑی میں قید کے دن گزارے جہاں چوہدری شجاعت حسین بھی قید رہے تھے۔ کتاب میں نواز شریف کا دوسرے دور حکومت (1997-1999ء ) پر محیط ہے جس کا عنوان ’’فوج ، عدلیہ اورحکومت کے درمیان کشمکش ‘‘ ہے اس دور میں اس وقت کے چیف جسٹس کو جیل بھجوانے کی میاں نواز شریف کی’’ معصومانہ خواہش ‘‘کا بھی ذکر ہے۔ چوہدری شجاعت حسین نے رفیق تارڑ کو صدر بنائے جانے کے واقعہ کا دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ چوہدری شجاعت حسین نے کارگل جنگ کے تنازع سے بھی پردہ اٹھایا ہے انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ میاں نواز شریف کو فوج نے کارگل پر دوبار بریفنگ دی۔ کتاب میں جنرل پرویز مشرف کی’’ خطرناک آنکھوں ‘‘کا تذکرہ کیا ہے ۔میاں شریف نے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں کہا تھا کہ اس شخص کی آنکھیں خطرناک ہیں لہذا اسے فارغ کر دینا ہی بہتر ہے۔ کتاب میں میاں نواز شریف کی سعودی عرب جلاوطنی سے متعلق معاہدے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ مسلم لیگ(ق) کے دور حکومت میں میر ظفر اللہ جمالی کے وزیر اعظم بنائے جانے اور ہٹائے جانے کی وجوہات بیان کی ہیں۔ جنرل مشرف میر ظفر جمالی کی سست مزاجی سے ناراض تھے۔ کئی کئی روز تک ان کے دفتر میں سرکاری فائلیں ان کے دستخطوں کی منتظر رہتی تھیں انہوں نے میر ظفر اللہ جمالی کے استعفاٰٰ اور شوکت عزیز کی نامزدگی کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے دورہ بھارت میں ہونے والی پذیرائی کا خاص طور پر ذکر کیا۔ وہ چیف جسٹس کی معزولی اور لال مسجد کے آپریشن کے پس پردہ حقائق منظر عام پر لائے ہیں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جنرل پرویز مشرف کو یقین دہانی کے بارے میں بتایا انہوں نے لال حویلی آپریشن رکوانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے جب وہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں تو افسردہ ہو جاتے ہیں انہوں نے جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان 2007ء میں ہونے والے این آر او کی تفصیلات بتائیں اور بتایا کہ 2008ء کے انتخابات ’’فکس ‘‘ تھے ان کو ہرانے کا منصوبہ جنرل پرویز مشرف اور طارق عزیز نے بنایا تھا اس منصوبہ کو امریکہ کی آشیرباد حاصل تھی۔ اگرچہ یہ چوہدری شجاعت حسین کی خود نوشت ہے لیکن ایک پورا باب چوہدری پرویز الٰہی کی وزارت عظمیٰ کا ہے جس میں ان کے دور میں کی جانے والی اصلاحات و اقدامات کا تفصیلی ذکر ہے۔ چوہدری شجاعت حسین پاکستانی سیاست کے مضبوط کردار کے مالک ہیں ۔ ایک جملے میں اپنا ما فی الضمیر بیان کر دیتے ہیں انہوں نے کتاب کا عنوان ’’سچ تو یہ ہے‘‘ رکھا ہے لیکن میں نے ان کی کتاب میں نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے کے سچ کے بارے میں جاننے کی بڑی کوشش کی لیکن اس بارے میں کتاب خاموش ہے ۔چوہدری شجاعت حسین، راجہ محمد ظفر الحق سے ہونے والے کامیاب مذاکرات کے بعد میاں نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امرا میں ہونے والا ظہرانہ کی منسوخی کا کہیں ذکر نہیں ۔ میر ظفر اللہ جمالی کی جگہ ہمایوں اختر عبد الرحمنٰ کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ ہو گیا وہ کون سی وجوہات تھیں جو ہمایوں اختر عبد الرحمنٰ کے وزیر اعظم بننے کی راہ میں حائل ہو گئیں۔ 2007 ء میں جنرل پرویز مشرف نے چوہدری برادران سے بالا ہی بالا محترمہ بے نظیر بھٹو سے دوبئی میں معاہدہ کر لیا اگرچہ بعد ازاں جنرل مشرف نے معاہدہ کی کچھ تفصیلات بتائیں لیکن چوہدری شجاعت حسین نے جنرل پرویز مشرف کی بے وفائی پر خاموشی اختیار کر لی ۔ گجرات کے چوہدری بڑے غیرتمند سیاست دان ہیں انہوں نے اپنے عظیم باپ کی وہ کار ابھی تک محفوظ رکھی ہے جس میں چوہدری ظہور الہی کو شہید کیا گیا تھا وہ کیا مجبوری تھی کہ چوہدری برادران کو اپنے عظیم باپ کے’’ قاتلوں ‘‘کی پارٹی کی حکومت کا حصہ بننا پڑا ہے۔ چوہدری صاحب کی اس بات میں کتنا سچ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو آپ کے گھر آنا چاہتی تھیں لیکن چوہدری ظہور الٰہی شہید کی غیرت مند بیٹیوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے گھر کی دہلیز پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی ۔ چوہدری صاحب کو ان عوامل پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے تھی جو شریف خاندان اور چوہدری برادران کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کا باعث بنے ۔ چوہدری صاحب نے سچی بات کہی ہے ’’ جھوٹ میں بولتا نہیں سچ میں لکھ نہیں سکتا ‘‘ چوہدری شجاعت حسین کی 40 سالہ سیاسی زندگی میں اہم واقعات ہوئے ہیں جنہیں انہوں نے قلمبند کرنے سے گریز کیا ہے۔ چوہدری شجاعت حسین شرافت کا پیکر ، دوستوں کے دوست اور قبر تک دشمنی نبھانے والی شخصیت ہیں ۔ ہمیشہ دھڑلے کی سیاست کی ہے ۔میں نے ان سے میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران ان سے جدہ میں ہونے والی ملاقات کا ذکر کیا جس میں میاں صاحب نے ساتھ چھوڑنے کا گلہ کیا تو چوہدری شجاعت حسین نے برجستہ جواب دیا کہ ’’میاں نواز شریف سے پوچھنا تھا وہ چھوڑ کر جدہ کیو ںچلے گئے تھے ۔ چوہدری پرویز الہی میاں نواز شریف سے اس حد تک ناراض ہیں کہ جو ان کے سامنے میاں نواز شریف کا نام لے لے ہفتہ بھر اس سے بات نہیں کرتے۔ یہ دوریاں اور فاصلے ختم کرنے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار کیوں نہیں ہوئیں ؟ چوہدری شجاعت حسین کا شریف خاندان کے ساتھ اس حد تک تعلق تھا کہ
جب بیگم کلثوم نواز پرویزی مارشل لاء کے دوران اسلام آباد آتیں تو چوہدری شجاعت کے گھر ہی قیام کرتیں لیکن جب چوہدری شجاعت حسین کو ان کی آمد کا علم ہوتا تو وہ اسلام آباد ہی نہ آتے۔ کتاب میں مشاہد حسین سید کی علیحدگی کا پس منظر بھی شامل کر لیا جاتا تو خاصا سچ سامنے آجاتا۔ چوہدری شجاعت حسین ایک وضعدار شخصیت ہیں لہٰذا ادھورا سچ بول کر بہت سوں کی ’’پردہ داری ‘‘ کی ہے ۔ چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب کی دوسری جلد میں تاریخ کے وہ اوراق بھی الٹ دیں جو انہوں نے مصلحتاً الٹنے سے گریز کیا ہے ۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024