یہ بات بالکل طے ہے کہ کارخانہ حیات میں ازل تا ابد خیر و شر کے حوالے سے کشمکش موجود رہے گی۔ مگر معاملہ غلبے کا ہے۔ یعنی کون کس پہ غلبہ حاصل کرتا ہے، وہ کیا طاقت ہے جو غالب آجاتی ہے اور وہ کیا طاقت ہے جو مغلوب ہو جاتی ہے؟ نیکی اور بدی کا ایک ساتھ چلنا ممکن ہو ہی نہیں سکتا مگر صبر واستقامت کے سہارے سے کچھ اچھا اور کچھ برا ہو تو گزارا کیا جا سکتا ہے مگر برائی کی حد ہے کہ شرم و حیا ہی ختم ہو جائے یا برا ہونے کا احساس ہی مر جائے اور اسی مرحلے کے آ جانے سے ہم کہتے ہیںکہ دلوںپہ مہر ثبت ہو گئی ہے، دل کالے ہو گئے ہیںاور یہی بربادی کا نقّارہ ہوتا ہے۔ کوئی مال کے معاملے میں ہیرا پھیری کرے۔ کوئی پرس اور موبائل چھینے۔ کوئی گھر میں گھس کے گھر کا صفایا کر دے یا پھربنک لوٹے بحر حال اسے چوری و ڈاکہ ہی کہیں گے۔ اپنی اپنی پہنچ ،توفیق اور طریقہ واردات ہے۔گھروں کو بھر لیں لیکن ادارے خالی کر دیں، گھروں سے حصولِ علم کیلئے نکلنے والے طالبعلم ریسٹورنٹس وپارکس میں گھومیں پھریں، دفتری غیر حاضریوں کو حاضریاں بنا دیں،کام نہ کریں لیکن کاروائیاں ڈالیں، گھر والوں کو کچھ بتایا جائے لیکن باہر کے معاملات کچھ اور ہوں، اسے دھوکہ دہی ہی کہا جاتا ہے۔ہم افسر اعلیٰ، اہل ِ خانہ و دوست احباب پہ جعلی عکس ڈال کر اپنا مدعا تو حاصل کر سکتے ہیںلیکن فنکاری ہمیشہ یونہی نہیں کام آتی۔عزت ، آبرو،تقدیس و بھرم یہ سب الفاظ نہیں بلکہ بیش بہا قیمتی تحفے و احساسات ہیں!
عزت و بھرم کی دولت بڑی مشکل بنتی ہے، عزت و آبرواور بھرم ختم ہو جائے تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ عزت عہدے اور مال میں نہیں بلکہ عزت یہ ہے کہ کوئی آپ کی محنت اور ایمانداری کے سبب آپ کا احترام کرے،آپ کی سچی تعریف کرے۔بڑی بڑی کرسیوں میں عزت تلاش کرنیوالے اللہ کے بندوں کے دلوں میں اپنے کردار کے سبب مقام و عزت پیدا کریں۔ مگر کیا ہے کہ بات بات پہ جھوٹ ، ہر مقام پہ جعلی عکس، ہر وقت ہیرا پھیری، ہر لمحہ فنکاری۔ کسی کو نظر نہیں آتا، سب اندھے ہو جاتے ہیں، سب ایک دوسرے کے کانے ہو جاتے ہیں، سب ہی کالے کالے ہو جاتے ہیں۔ سب کانے کالے ایک دوسرے کی سپورٹ بن جاتے ہیں کہ وہ سب مل کر اندھیر مچاتے ہیں، سب مل کر کھاتے ہیں۔ سب کا حصہ ہو تا ہے۔ مگر جو خوف ِ خدا کی بات کرتا ہے، وعظ و تلقین کرتا ہے، نہ کھاتا ہے نہ کھانے دیتا ہے، بچتا ہے اور بچاتا ہے وہ تنہا رہ جاتا ہے۔پھر وہی تنہا رہ جانے والا ہی تو ٹارگٹ میں آ جاتا ہے۔ سب ہی اس سے ناخوش، سب ہی اس سے تنگ،سب ہی اس سے نالاں، نظامِ قدرت ہے کہ سچ میں طاقت بہت ہے۔ ہزار جھوٹوں میں ایک سچا طاقتور ہے۔ پھر سچے نے جو کیا وہی سچ کرنا،سچ کہنا کافی ہو گیامگرفنکاروں کو کیا ہے جو نہیں کرنا پڑتا، بہانے ، جواز، سبب کیا کیا ہے جو نہیں گھڑتے، بناتے۔ فنکاریاں مکاریاں سب پریشانیاں ہی تو ہیں۔ سچا تنہا، سر پھرا اور اکھڑا نظر آئیگا۔ آخر کیوں؟ کیوں ہم سیدھے اور صاف نہیں ہو جاتے، اپنا احتساب آپ ہی کیوں نہیں کر پاتے ہم سب بگڑے ہیں تو آنیوالے بھی بگڑیں گے ہم اپنی نسلوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ہم اپنے ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ہر گلی ہر محلے، ہر ادارے اور ہر گھر میں بڑے بڑے عزت دار گینگ موجود ہیں مگرہمیں صرف ایک چھوٹو گینگ ملا ہے ہر گینگ کی جڑیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہیں پھیلی ہیں یا یوں کہیے نیٹ ورکنگ ایول سسٹم کیلئے ضروری ہے کہ شیطانی چکر کے چکروں کو نام نہاد طور پر مستند بھی تو کرنا ہے چھوٹو گینگ تک پہنچنے والے معاشرتی و سماجی و سیاسی فتنوں کی افزائش و پرورش کرنیوالوں کو بھی احاطۂ بینائی میں لائیں ہمارے اردگرد ایک تماشا ہے جو رات دن لگا رہتا ہے ہم سب چور ہیں تبھی تو ہمارا قومی مجموعی کردار سوالیہ نشان بن گیا ہے وکی لیکس و پانامہ لیکس انگلیاں ہماری طرف اٹھتی ہیں تو باتیں، باتیں اور باتیں رہ جاتی ہیں ہم سب فنکار ہیں ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں قائداعظم محمد علی جناح کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر کوئی تکرار نہ کر سکتا تھا کہ محسن پاکستان ایماندار و صاحب کردار تھے ۔۔ پھر دین ابراھیمی ؑ اور حیات طیبہﷺکے پیروکاروں کا یہ حال؟ ہمیں خیرو شر کی کشمکش میں خیر کا ساتھ دینا تھا مگر ہم شر کے ساتھی بن گئے ہمیں کیا کرنا تھا؟ ہم کیا کرنے لگ گئے؟ مگر چونکہ اپنی کوتاہیوں و چوریوں کا اعتراف سدھار کی جانب آغاز سفر ہے تو پہلے ہمیں اپنے مجموعی قومی کردار کے سدھار کیلئے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کر لینا چاہیے۔
آئیے ہتھیار ڈال دیں؟ شر انگیز جھوٹ، فریب کاری،چوری و ڈاکہ زنی، بے ایمانی و منافقت و بدی کے ہتھیار پھینک دیں گروہ بندی، محاذ آرائی جو ہم نے آپ ہی اپنے ملک وقوم کیلئے ذاتی مفادات کیلئے کر رکھی ہے اس سے گریزاں ہو جائیے، پولیس، رینجر و دیگر فورسز ناکام ہو سکتی ہیں مگر پاک آرمی ملک وقوم کی اخلاقی، سیاسی و سماجی ہر سطح پہ چوکنا ہو چکی ہے صف آراء نظر آرہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا سول سسٹم ناکام ہو چکا ہے؟ ہر جگہ آرمی آپریشنز جاری ہیں توکیا ہمارا سول کنڈکٹ ناکارہ ہو چکا ہے؟ آرمی کا کام ہماری سرحدوں پہ ہماری حفاظت کرنا ہے اور یہی کام آرمی کو زیبا ہے تو بالواسطہ و بالا واسطہ آرمی ہی ہمارے ملک کی ہر طور بگاڑ کے سدھار کی ضمانت کیوں بنتی چلی جا رہی ہے ہم نے اسی سول سسٹم میں رہنا ہے اسی سسٹم کی کجی کو درست کرنا ہے۔ ایماندار و بہادر سول افسروں کی آج جتنی ضرورت ہے اس سے قبل کبھی نہ تھی بس بات اتنی ہے کہ ہماری سول انتظامیہ چوکنا ہو جائے اور بد عنوانی کیخلاف جہاد کرے کہ چاک گریباں جو ہو پہلے تو چہرے بھی نظر آئینگے اپنے…
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38