مُلتان میں، میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے، جمعیت عُلماءاسلام (ف) کے امیر، مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ۔” ریٹرننگ افسروں نے، حدیث کی کتابیں پڑھانے والے، ہمارے عُلمائے کرام کو انتخاب لڑنے کے لئے، نا اہل قرار دے دیا ہے، لیکن اداکاراﺅں کو پاک صاف اور پارسا قرار دے دیا گیا ہے“۔چند روز قبل ڈیرہ اسمعٰیل خان میں، مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ۔ ”ہمارے مولانا صاحبان، آئین کی دفعات 63/62 پرپُورا نہیں اُترتے ،لیکن فلم ایکٹریس مسرت شاہین ، پورا اُتر سکتی ہے“۔یاد رہے کہ، مسرت شاہین،اِس بار بھی قومی اسمبلی کے حلقہ این۔ اے 24ڈیرہ اسمعٰیل خان سے، مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں، انتخاب لڑ رہی ہیں۔مسرت شاہین نے ،مولانا صاحب کے خلاف پہلی بار انتخاب 1997ءمیں لڑا تھا اور ہار گئی تھیں۔ اُن دنوںمسرت شاہین فلموں سے تازہ تازہ ریٹائر ہوئی تھیں، کئی سال پہلے وہ فلم لائن چھوڑ کرشادی کے بعد Housewife بن گئی ہیں۔ مسرت شاہین کی پاکستان تحریکِ مساوات، الیکشن کمیشن سے باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ ڈیرہ اسمعیٰل خان ریٹرننگ آفیسرکے کہنے پر، مسرت شاہین نے، تیسرا کلمہ، سورئہ کوثر اور سورئہ مدثّر سُنا دی تو اُن کے کاغذات ِ نامزدگی، منظور کر لئے گئے۔ آئین کی دفعات 63/62 کا دائرہ بہت وسیع ہے ،ممکن ہے جمعیت علماءاسلام کے، حدیث کی کتابیں پڑھانے والے عُلمائے کرام کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کے لئے ریٹرننگ افسروں نے کوئی اور وجہ تلاش کر لی ہو۔یہ درست ہے کہ، فلمی دُنیا میں کئی طوائفیںبھی مشہور ہوئیں ، لیکن ساری اداکارائیں، طوائفیں نہیں ہوتیں اور۔ ”طوائفوں کا ادارہ“۔ بھی تو بادشاہوں ، نوابوں اور جاگیر داروں کا پیدا کردہ ہے۔غُلاموں اور کنیزوں کا تصّور بھی صدیوں پُرانا ہے اوربَردہ فروشی بھی۔ پیغمبر انقلاب کے دَورمیں رئیس اُلمنافقِین عبداللہ بن اُبیءسب سے بڑا ،بَردہ فروش تھا۔ اُم اُلمومنِین حضرت خدیجہ ؓ کے پاس۔ اُحد پہاڑ کے برابر چاندی اور سونا تھا۔ جو اُنہوں نے غُلاموں اور کنیزوں کو آزاد کرانے اور اُن کی شادیاں کرانے میں خرچ کر دیا تھا۔اسلام میں ذات پات نہیں تھی، لیکن ہمارے معاشرے میں ،سماجی طور پر کمزور شخص سے نفرت کی جاتی ہے۔ ہندوﺅں میں ذات پات کا نظام۔ چھٹی صدی عیسوی میں ،دھرم شاستر(منُو سِمرتی) لِکھنے والے فاضل۔ ”منُو جی“۔ نے بنایا تھا۔ علامہ اقبال ؒ نے ہندوﺅں کے اوتار۔ ”بھگوان رام“۔ کی انسانی خوبیوں پر ایک نظم لِکھی تھی۔ رام جی نے، ایک نچلی ذات کی بھیلنی کے جُوٹھے بیر کھا کر، اُسے احساس دلایا تھا کہ وہ بھی برابر کی سطح کی انسان ہے ۔ بُدھ متّ کے بانی۔ گوتم بُدّھ ،اپنے چیلوں سمیت ایک ویشیا (طوائف) کی دعوت پر ،اُس کے گھر مہمان بن کر گئے تو، اُس ویشیا کے گاﺅں کا نام ہی۔ ”ویشالی“۔ پڑ گیا ۔ ”ویشالی“۔ اب بھارت کے صوبہ بہار کا ،مشہور ضلع ہے۔ انجیل مقدّس کے مطابق، ایک طوائف مریم مگدلینی۔ (Mary of Magdala)نے حضرت عیسیٰ ؑ کے سر پر قیمتی عطر ڈالا اور اُسی عِطر سے، اُن کے پاﺅں بھی دھوئے تو،اُن کے حواریوں نے بُرا منایا تو،حضرت عیسیٰؑ نے کہا کہ ۔ ”اِس عورت کا یہ عمل ہمیشہ یادگار رہے گا“۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے مریم مگدلینی کو ۔ ”خدا کی بادشاہت“۔ میں داخل ہونے کی نوید بھی سُنائی تھی۔ سر سیّد احمد خان ؒ ۔علی گڑھ کالج کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کر رہے تھے کہ، کچھ طوائفیں بھی چندہ لے کر آگئیں۔ مجلس میں بیٹھے ایک صاحب نے کہا۔” ہم یہ چندہ کیسے لے سکتے ہیں؟“۔ تو سر سیّد ؒ نے کہا۔ ”ضرور لیں گے ۔ ہم اِس چندے سے کالج کے بیت اُلخلاءبنوا دیں گے“۔ یہ محض مذاق تھا، لیکن سر سیّد ؒ طوائفوں سے نفرت نہیں کرتے تھے ۔ ہمارے یہاں، فلمیں بنتی ہیں اور سینما گھروں میں دکھائی جاتی ہیں۔ فلمی اداکار اور ادا کارائیں فلم ساز اور سینما گھروں کے مالکان اپنی اپنی آمدن پر ٹیکس ادا کرتے ہیں، جو قومی خزانے میں جمع ہوتا ہے۔ اور وہاں سے ہمارے سرکاری ملازمین اور ارکانِ پارلیمنٹ کو تنخوا ہیں مِلتی ہیں۔ اِس لحاظ سے اگر فلمی اداکارائیں، آئین کی دفعات 63/62پر پورا اُترتی ہیں تو اُن کے انتخاب لڑنے پر اُن پر طنز کیوں کیا جائے۔ بازنطینی روم کی ملکہ تھیو ڈورا (Theodora I) ۔شہنشاہ جسٹِینین اوّل (Justinian The Great) سے شادی کرنے سے پہلے تھیٹر کی اداکارہ اور طوائف تھی۔ اُس نے ملکہ بننے کے بعد ،روم سے قحبہ خانے۔(Brothels)۔ ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ ملکہ تھیوڑا ہی تھی کہ جِس نے ،بغاوت سے خوفزدہ ہو کر بھاگنے والے، جسٹِینین دی گریٹ سے کہا تھا کہ۔ ”جب کوئی بادشاہ ارغوانی لباس پہن لیتا ہے تو موت کے سِوا کوئی اور یہ لباس نہیں اُتار سکتا“۔ ملکہ تھیوڈورا کی حِکمت عملی سے، بغاوت کو کچل دِیا گیااور جسٹِینین نے مزید 33سال حکومت کی۔اِسی طرح بہت کم لوگ ،پیدائشی طور پرمخنّث ہوتے ہیں، لیکن بادشاہ ، نواب اور جاگیردار۔ اپنی لاتعداد بیویوں اور داشناﺅں کی نگرانی اورحفاظت کے لئے ،بعض مردوں کو اُن کی قوتِ مردمی سے محروم کرکے انہیں خواجہ سراءبناتے رہے ہیں۔تاریخ میں ایسے خواجہ سراﺅں کا ذِکر ہے ،جنہوںنے سازشیں کر کے، کئی بادشاہوں کی حکومتیں ختم کراکے انہیں۔ مقامِ عِبرت تک پہنچایا۔ کئی خواجہ سراﺅں نے، اپنے آقاﺅں کے لئے میدانِ جنگ میں بھی داد ِ شجاعت دی۔ ہندوﺅں کی مقدس کتاب۔ ”مہا بھارت“۔ میں ایک پیدائشی خواجہ سرائ۔ ”شِکھنڈی“۔ کا تذکرہ ہے۔ شِکھنڈی۔ پانچال دیش کے مہاراجہ۔”دروپد “۔کا بیٹا اور پانچ پانڈو بھائیوں۔یُدھشٹر ، ارجُن ،نکل ،سہدیواور بھیم کی مشترکہ بیوی۔ ”درو پدی“۔کا سگا بھائی تھا ۔ اور۔ ”مہا رتھی“ ۔(یعنی دس ہزار تیر اندازوں سے مقابلہ کرنے والا جرنیل) ۔اُس نے مہا بھارت میںکوروﺅں کے، سب سے بڑے فوجی جرنیل۔” بھیشم پتامہ“۔ کو قتل کیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے، خواجہ سراﺅں کو بھی انسان سمجھ کر اُنہیںمساوی انسانی حقوق دئیے۔ ووٹ کا حق دیا اور انتخاب لڑنے کا بھی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ، سابقہ اداکارہ مسرت شاہین اور کئی خواجہ سرا ﺅںکوعام انتخابات میں سِکّہ بند سیاست دانوں اور مذہبی راہنماﺅں کے مقابلے میں آنے کی جرا¿ت کیسےہوئی ؟۔ اِس لئے کہ، سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر ۔معزز لوگ اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں،حالانکہ یہ لوگ توّجہ ، ہمدردی اور سرپرستی کے مستحق ہیں ۔اگر اِن کے معاشی مسائل حل کئے جائیں تو وہ اپنے کام سے کام رکھیں گے اور بڑے سیاستدانوں اور عُلماءکے مقابلے میں ، کاغذاتِ نامزدگی کیوں داخل کریں گے ؟۔ایک پنجابی کا اکھان ہے ۔” کوڈی دا کانا۔لکھّ روپیّے دی اکھّ نوں بھنّ دیندا اے “۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں !۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024