سونامی تا مویشی منڈی

Sep 23, 2024

کامران نسیم بٹالوی

عام تاثر ہے کہ عزت شہرت اور طاقت کا سنبھالنا کسی مہارت سے کم نہیں اور وہ جو اس مہارت سے عاری یا نہ بلد ہوتے ہیں وہ ان خصائص کو جلد ہضم نہیں کر پاتے اور اگر ہضم بھی کر لیں تو کچھ دیر میں ہی اگل کر لوگوں کے سامنے اپنی اصلیت اشکار کر دیتے ہیں اور یوں پھر ان کا شمار محرومین میں ہونے لگتا ہے ہمارے ماضی قریب اور بعید میں بہت سے ایسے کردار دیکھنے کو مل جائیں گے جو محض اپنی جبلت اور خود پسندی کی بدولت اعلی ترین مقام و مرتبہ پر پہنچ کر ایسے منہ کے بل نیچے گرے کہ جیسے لڈو کے کھیل میں سویں نمبر کے عین قریب سانپ کا ڈنک لگنے سے کھلاڑی صفر یا اس کے قریبی ہندسہ کے پاس ا کر ٹھہر جائے اور پھر مقدر ہے کہ کھیل اتنی طوالت پکڑتا ہے کہ وہ دوبارہ اس مقام تک پہنچے اور جیت جائے مگر عموما ایسا ہوتا نہیں کیونکہ مد مقابل اسکے نیچے گرتے ہی ایک دو بار یوں میں ہی وکٹری پوائنٹ پر پہنچ کر ونر کہلاتا ہے اور ہارنے والا لوزر کہلاتے ہوئے گیم سے اؤٹ ہو جاتا ہے ذکر ہے اج اس سابقہ کھلاڑی کا جس کا تعلق لڈو سے تو نہیں کرکٹ سے تھا اور یہی کرکٹ اس کو ایوان اقتدار تک پہنچانے کا سبب بنی یعنی عمران خان نیازی سکنہ ڈیالہ جیل نمبر 804 ائیے کچھ سال پیچھے چلتے ہیں جب 2019 میں امریکی جریدہ ٹائم میگزین کے مطابق عمران خان کا شمار دنیا کے پہلے 100 با اثر ترین افراد میں کیا جاتا تھا جبکہ اس کے علاوہ دنیا کے 500 با اثر ترین مسلمان شخصیات میں سے 2020 کے مطابق عمران خان 16 نمبر پر تھے اور 2022 میں 10 ویں نمبر پر ا چکے تھے لیکن پھر کیا ہوا کہ اج عمران خان صاحب کا شمار دنیا کے بے بس اور بے اثر ترین شخصیات میں ہو رہا ہے 90 سے 360 ڈگری تک زاویہ بدلنے کی تبدیلی اخر کیوں کر ہوئی اس کے لیے جہاں ہمیں عمران خان کی ذاتی شخصیت اور رویوں کا علم ہونا چاہیے وہاں تاریخ کے پیرائے میں قومی سیاسی اور اسٹیبلشمنٹ کی ملکی سیاست میں مداخلت کاری کی مستقل روش کو ضرور جاننا ہو گا تاکہ کوئی بھی نقاد یہ درست فیصلہ کر سکے کہ عمران خان کی اسیری ،گری ہوئی شہرت، سیاسی کمزوری اور سابقہ روفقا کا عین مشکل میں ساتھ چھوڑ جانا اصل قصوروار کون ہے ضیا دور کے بعد جب اسٹیبلشمنٹ کو پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا بار بار اقتدار میں انا اور باریاں بدلنا اچھا نہ لگا اور انہیں محسوس ہوا کہ اقتدار محض دو جماعتی لیڈران کے گھر کی لونڈی بن چکی ہے تو جنرل مشرف نے اپنے دور حکومت کے اختتام سے قبل جاتے جاتے پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مد مقابل ایک تیسری سیاسی جماعت اور لیڈر کو لانچ کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ وہ مستقبل بنیادوں پر پاکستانی سیاسی میدان میں ایک ایسی سیاسی قوت بنا ڈالے جس سے نہ صرف وہ ڈکٹیٹروں کو للکارنے والے بھٹو اور میاں فیملیوں سے بدلہ لے سکے بلکہ اپنے متنازعہ اور غلط ایجنڈوں کو تحریک انصاف کے ذریعے جاری و ساری رکھ سکے جس کے تحت 2008 سے 2010 تک کہ ائی ایس ائی سربرا ہ جنرل شجاع پاشاہ کو ٹاسک سونپا گیا اور عمران خان اور تحریک انصاف کو عملی طور پر اقتدار میں لانے کے لیے منصوبہ پر کام شروع کر دیا گیا اگرچہ پی ٹی ائی کی بنیاد عمران خان 1996 میں رکھ چکے تھے مگر اسٹیبلشمنٹ کی اشر باد اور لانچ نہ ہونے سے قبل صوبائی اور قومی انتخابات طور پر ایک بھی نشست حاصل کرنے کے اہل نہ ہوسکے تھے ریٹائرڈ جنرل پاشاہ جاتے جاتے اس پروجیکٹ کو اپنے اگلے ہم منصب جنرل ظہیر الاسلام کہ سپردکر گئے جو 2010 سے 2014 تک اپنے پیشہ وارانہ فرائض کے ساتھ ساتھ پاکستانی تحریک انصاف کو سیاسی دوام بخشنے میں ہما تن گوش رہے اور 2011 میں پاکستانی تحریک انصاف کا پہلا سونامی پاور شو مینار پاکستان میں منعقد کیا گیا جس نے لیگیوں اور پپلیوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی تھیں جنرل ظہیر الاسلام ایک پیر کی یا مرشد کی مانند 2014 میں اپنی گدی کی ذمہ داریاں جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے سپرد کر گئے جس نے اس پروجیکٹ کو انتہا کی منزلوں تک پہنچا تے ہوئے نہ صرف میاں نواز شریف صاحب کو 2017 میں دوران حکومت گھر چلتا کیا بلکہ 2018 میں عمران کو بطور وزیراعظم پاکستان بنا کر ہی دم لیا اس دوران تحریک انصاف کا ہر جلسہ سپر ہٹ فلموں کی طرح ایک سے بڑھ کر ایک ہٹ ہوتا رہا مگر افسوس صاحب اقتدار بن جانے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ عمران نیازی ایک جمہور پسند شخصیت بنتے اور جمہوری اقدار اور سیاست کے داعی ہوتے الٹا ان کے اندر امرانہ رویہ کوٹ کوٹ کر بھر گیا ظاہر ہے کہ امروں کے ذریعے پروان چڑھا ہوا پودا بھی ویسا ہی اثر رکھتا ہے اور اپنی انا پرستی ہٹ دھرمی اور خود غرضی کی بدولت عمران نیازی نے قومی سیاست اور ریاست دونوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی نہ صرف یہ بلکہ غیر جمہوری اور غیر فطری رد عمل اور ریاست سے ٹکراؤ ہی ٹکراؤ کے نتیجہ میں حالیہ انتخابات میں اچھا خاصا ووٹ حاصل کرنے کے بعد جو بھی قومی سیاسی دھارے میں مائنس کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ایک سال سے زائد پابند سلاسل ہیں حیرت اس امر کی ہے کہ وہ اج بھی مرغ کی ایک ٹانگ کے مصداق اپنے نامعقول نکات پر اڑے ہوئے ہیں ان کی غیر موجودگی میں ہونے والے جلسے خواہ وہ کے پی کے اسلام اباد لاہور میں ہوں وہ جلسوں کی بجائے جلسیوں کا منظر پیش کر رہے ہیں مینار پاکستان سے شروع ہونے والا لاکھوں شرکا پر مشتمل جلسے اب صرف مویشی منڈیوں کے گراؤنڈوں تک جا پہنچے ہیں ایسے ناکام جلسوں کے بہت سے اسباب ہیں جن کی زیادہ تر ذمہ داری تحریک انصاف کے اپنے اپ پر تو ہے ہی لیکن اس سے بھی زیادہ ذمہ دار عمران خان خود ہیں کیونکہ نومی ایک ایسی گلے کی ہڈی بن چکا ہے جس نے ستر فیصد سے زیادہ پاور شو کے لئے نکلنے والے تحریک انصاف کے سپوٹرز اور ووٹرز کو خوف کی بدولت گھروں اور سوشل میڈیا تک محدود کر کے رکھ دیا ہے رہی کسر پارٹی کے اندر مختلف دھڑے بندی اور غیر سیاسی قیادت نے پوری کردی جو نہ صرف دونو اطراف میں کھیل رہے ہیں بلکہ انتہا کے بزدل بھی ہیں اس لیے کہتے ہیں اصل یا حقیقی لیڈر کے بغیر جماعت یتیم ہی گردانی جاتی ہے لحاظہ پی ٹی آئی کے موجودہ جلسے سواے خفت مٹانے اور خانہ پوری کے کچھ نہیں جن میں نہ کہیں تنظیم اور نہ تحریک نظر آتی ہے۔

مزیدخبریں