الیکشن کمیشن کا جنوری کے آخری ہفتے انتخابات کا اعلان

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اہم اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات آئندہ سال جنوری 2024ءکے آخری ہفتے میں کرا دیئے جائیں گے۔ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے کام کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر 2023ءکو شائع کر دی جائیگی۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات اور تجاویز کی سماعت کے بعد حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع کی جائیگی اور پھر 54 دن کے الیکشن پروگرام کے بعد جنوری 2024ءکے آخری ہفتے میں انتخابات کر ادیئے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس سلسلہ میں چاروں صوبائی چیف سیکرٹریوں کو مراسلہ ارسال کیا گیا ہے کہ وہ عام انتخابات کی تیاریاں شروع کر دیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آئین کی دفعہ 220 کے تحت تمام ایگزیکٹوز الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں۔ چیف سیکرٹریز انتخابات کی تیاریوں میں الیکشن کمیشن کی معاونت کریں اور متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو بھی ضلعی الیکشن کمیشن سے فوری رابطے کی ہدایت دیں۔ الیکشن کمیشن کے اس اعلامیہ کا مسلم لیگ (ن)‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علماءاسلام (ف) اے این پی اور استحکام پاکستان پارٹی کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا ہے جبکہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ پر اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی قبل ازوقت تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کا آئینی تقاضا پورا کرنے پر اصرارکررہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت انتخابات کے عمل میں جانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کیلئے لیول پلینگ فیلڈ کی متقاضی ہے۔ اس پارٹی کی قیادت اب انتخابات کے 90 دن کے اندر انعقاد کا آئینی تقاضا پورا کرنے پر اصرار نہیں کر رہی۔
اس امر پر تو یقیناً دو رائے نہیں ہو سکتی کہ آئین کی دفعہ 224 کی ذیلی دفعات کے تحت قومی یا صوبائی اسمبلی اپنی آئینی میعاد پوری ہونے کے بعد تحلیل ہوگی تو متعلقہ اسمبلیوں کے ساٹھ دن کے اندر اندر انتخابات لازمی آئینی تقاضا ہوگا اور ماضی میں یہ آئینی تقاضا پورا کیا بھی جاتا رہا ہے جبکہ قومی یا صوبائی اسمبلی اپنی آئینی میعاد پوری ہونے سے پہلے تحلیل کی جائیگی تو متعلقہ اسمبلی کے 90 دن کے اندر اندر انتخابات عمل میں آئیں گے تاہم یہ لازمی آئینی تقاضا مختلف نوعیت کے جواز نکال کر پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملہ میں بھی پورا نہ ہو سکا اور سپریم کورٹ بھی اس معاملہ میں پنجاب اسمبلی کے 14 مئی کو انتخابات کے اٹل فیصلہ پر متعلقہ اتھارٹیز سے عملدرآمد نہ کراسکی جبکہ اب قومی اسمبلی کے90 دن کے اندر انتخابات کا لازمی آئینی تقاضا بھی پورا ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
اس کیلئے دو اہم آئینی اور قانونی معاملات موضوعِ بحث اور وجہ نزاع بنے ہیں۔ ایک یہ کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے قبل مشترکہ مفادات کونسل نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی مشاورت اور اتفاق رائے کے ساتھ نئی مردم شماری کی توثیق کر دی جس کی بنیاد پر آئین کی دفعہ 51 اور اسکی شقوں کے تحت انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیوں کا اجراءبھی لازمی آئینی تقاضا بن گیا جبکہ یہ لازمی آئینی تقاضا پورا کرنے کیلئے 90 دن کے اندر انتخابات کا لازمی آئینی تقاضا پورا نہیں کیا جاسکتا چنانچہ الیکشن کمیشن نے مردم شماری کی توثیق کے بعد ازسرنو حلقہ بندیوں کے آئینی تقاضے کو ترجیح دی اور اس پر کام کا آغاز کردیا۔ حلقہ بندیوں کی اشاعت سے اپیلوں کے فیصلہ تک الیکشن کمیشن کو کم از کم چار ماہ کی مدت درکار تھی جس کے بعد ہی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکتا تھا چنانچہ اس پر الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ جب نگران سیٹ اپ تشکیل پایا تو اس کیلئے بھی انتخابات کو 90 دن سے آگے لے جانے کیلئے حلقہ بندیوں کا جواز نکل آیا اور نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اعلان کیا کہ اس بارے میں سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن جو فیصلہ کریگا‘ حکومت اس پر عملدرآمد کریگی۔
اسی حوالے سے دوسرا آئینی تنازعہ یہ پیدا ہوا کہ انتخابات کی تاریخ کے تعین کا فیصلہ صدر مملکت نے کرنا ہے یا الیکشن کمیشن نے۔ آئین کی دفعہ 48 کے تحت انتخابات کی تاریخ کے تعین کا صوابدیدی اختیار صدر مملکت کے پاس ہے جبکہ سبکدوش ہونیوالی پارلیمنٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کرکے یہ اختیار الیکشن کمیشن کو تفویض کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن اس فیصلے کا بھی خود کو پابند سمجھتا ہے جس کا دوٹوک اظہار 90 دن کے اندر انتخابات کے معاملہ میں صدر عارف علوی کی جانب سے بھجوائے گئے مراسلے کے جواب میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کیا گیا۔ صدر نے اس معاملہ کی وضاحت کیلئے الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی مشورہ دیا جبکہ صدر مملکت خود بھی اپنے اختیارات کی وضاحت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے تھے مگر نہ صدر مملکت اور نہ ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے اب تک سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے اور ہر دو فریق انتخابات کی تاریخ کے تعین کے معاملہ میں اپنی اپنی آراءکا دامن ہی تھامے بیٹھے ہیں۔ اگر اس کھینچا تانی میں سیاسی کشیدگی بڑھتی ہے تو اسکے منفی اثرات لامحالہ پورے سسٹم پر مرتب ہونگے اور انتخابات کے 90 کے اندر انعقاد کا آئینی تقاضا پورا ہونا تو کجا‘ انتخابات کے طویل مدت تک ملتوی ہونے کے خدشات لاحق ہو جائیں گے جس کے بعض حلقوں کی جانب سے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ انتخابات کا تسلسل برقرار رکھنے سے ہی ملک میں سیاسی استحکام کی ضمانت مل سکتی ہے جبکہ اقتصادی استحکام بھی سیاسی استحکام کے ساتھ وابستہ ہے اور ایشیائی ترقیاتی بنک کی حالیہ رپورٹ میں باور بھی کرایا گیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد سے پاکستان میں اقتصادی استحکام پیدا ہونا شروع ہو جائیگا۔
یہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا پیدا شدہ تنازعہ یا تو تحفظات کا اظہار کرنیوالی سیاسی قیادتیں سپریم کورٹ کے ذریعے طے کرالیں یا پھر ایک دو ماہ کی تاخیر قبول کرکے آئندہ سال جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلہ پر صاد کر لیں۔ اس وقت 90 دن کے اندر انتخابات کے آئینی تقاضے پر صرف تحریک انصاف اصرار کررہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی اس لازمی آئینی تقاضے کے بجائے صرف لیول پلینگ فیلڈ چاہتی ہے جس کیلئے بروقت انتخابات کی خاطر تمام سیاسی قیادتوں کا متفق ہونا چنداں مشکل نہیں۔ اس وقت اصل ضرورت انتخابات کے راستے سے انتقال اقتدار کی منزل تک پہنچنے کی ہے جس کیلئے سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے اور محض اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے انتخابات کی منزل دور لے جانے کا جواز پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ یہ بلاشبہ سیاسی قیادتوں کی بصیرت کا امتحان ہے۔ بصورت دیگر انہیں بحالی ¿جمہوریت کی ماضی جیسی طویل جدوجہد کیلئے تیار رہنا چاہیئے۔