ملک کو لوٹنے والوں کا یوم احتساب قریب ہے‘ بھیس بدل بدل کر حکومتیں کیں‘ سراج الحق۔

یوم احتساب کا سن سن کر قوم کے کان پک گئے‘ ہر سیاست دان یہی راگ الاپتا نظر آتا ہے بالخصوص انتخابات کے موسم میں تو وہ بھی کڑے احتساب کا نعرہ لگا کر قوم کو مطمئن اور انکی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جن کا خود کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ اب پھر انتخابات کی آمد آمد ہے‘ 16 ماہ سیاہ و سفید کے مالک رہنے والے اتحادی اور اس پہلے ساڑھے تین سال اقتدار کے مزے ل±وٹنے والی پی ٹی آئی ملک و قوم کیلئے کچھ نہ کر سکی سوائے بدترین مہنگائی کے۔ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے‘ ان سے روٹی کا آخری نوالہ تک چھین لیا گیا جبکہ مہنگائی کے سابقہ ریکارڈ توڑ کر ایسے ریکارڈ قائم کر دیئے گئے جو شاید ہی دنیا کا کوئی حکمران توڑ پائے۔ اب سابق حکمران ہر جماعت ڈھٹائی کے ساتھ عوام کو باور کرا رہی ہے کہ انکے مسائل کا حل صرف ہمارے پاس ہے اور وہی اقتدار میں آکر ملک کو بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ غضب خدا کا‘ جو اپنی سابقہ حکمرانیوں میں اس ملک کو بحرانوں سے نکال نہیں پائے‘ بلکہ مزید اسے سنگین بحرانوں کی طرف دھکیل دیا‘ وہ اب بھی قوم سے ایک اور موقع مانگ رہے ہیں۔ یہ رویہ صرف ہمارے ملک پاکستان میں ہی دستیاب ہوتا ہے کہ جو اس ملک و قوم کیلئے کچھ نہیں کر پاتے‘ وہی کچھ نہ کچھ کرنے کی بڑھکیں مارتے نظر آتے ہیں۔ عوام بے چارے مٹی کے مادھو بنے سب سن اور برداشت کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اب تو ان میں احتجاج کرنے کی بھی سکت نہیں رہی۔ نہ جانے لوٹنے والوں کا یوم احتساب کب آئیگا اور کب وہ نشانِ عبرت بنیں گے۔ فی الحال تو قوم یوم حشر سے دوچار ہے جو روز جیتی اور روز مرتی ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قوم کو یہی دلاسا دیا جاتا رہا کہ جلد ہی ملک کو لوٹنے والوں کا یوم احتساب آنیوالا ہے مگر 75 سال میں آج تک کسی کا حقیقی احتساب نہیں ہو پایا۔ اربوں لوٹنے والے عیاشیاں کر رہے ہیں‘ بھوک سے تنگ آکر ایک روٹی چرانے والا جیل میں سڑ رہا ہے۔ ملک کو مہنگائی اور بحرانوں کی زد میں لا کر اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے‘ لگتا ہے کہ نہ کبھی قوم کو اس مہنگائی سے نجات ملے گی اور نہ ہی ملک بحرانوں سے نکل پائے گا۔ بحرانوں سے نکلنے کیلئے معیشت کا مضبوط ہونا ضروری ہے اور ہماری معیشت اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتی جب تک پاکستان سے چپکی آئی ایم ایف کی جونک ہمارا خون چوسنا نہیں چھوڑتی۔ بہرحال جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب قوم کو یقین دلا رہے ہیں کہ لوٹنے والوں کا یوم احتساب قریب ہے تو یقین کر لینے میں کیا حرج ہے‘ کیونکہ قوم کے پاس اسکے سوا کوئی اور چارہ ہے بھی تو نہیں۔ 
٭....٭....٭
بھارت میں سبزی منڈی کے کمیشن ایجنٹ نے تین ہزار کا قرض واپس نہ کرنے پر سبزی فروش کو تشدد کا نشانہ بنایا اور برہنہ کرکے سربازار گھمایا۔ 
عموماً فلموں میں ایک ولن کا کردار دکھایا جاتا ہے جس سے کسی کی عزت محفوظ نہیں ہوتی۔ اس وقت بھارت اپنی ہی فلموں کی عکاسی کر رہا ہے جس میں ایک ولن پوری فلم میں اَت مچائے رکھتا ہے اور کوئی بھی اسکے شر سے محفوظ نہیں رہتا۔ وہ اتنا طاقتور دکھایا جاتا ہے کہ قانون بھی اسکے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ فلموں‘ ڈراموں میں معاشرے کے ایسے ہی ناسوروں کی عکاسی کی جاتی ہے جو حقائق پر مبنی ہوتے ہیں۔ بے شک فلموں کے آخر میں ایسے ولن کا انجام برا ہی دکھایا جاتا ہے جو اگر قانون کے ہاتھ میں نہیں آتا تو ہیرو اسے اپنے انجام کو پہنچاتا ہے۔ اس وقت بھارت بھی دنیا کے سٹیج پر ایسے ہی ولن کا کردار ادا کررہا ہے جس نے دنیا بھر میں اَت مچائی ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر ہو یا بھارت میں اقلیتیں‘ مودی سرکار اور اسکے جنونی حامیوں نے ہر طرف غنڈہ گردی مچائی ہوئی ہے‘ بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ تو انہیں خاص بیر ہے۔ مودی سرکار کی سرپرستی میں ہندوﺅں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ جنونی ہندو تو اب سرعام نعرہ لگاتے ہیں کہ بھارت ہندوﺅں کا دیش ہے‘ یہاں صرف ہندوﺅں کو ہی رہنے کا حق ہے۔ پاکستان کیخلاف بھی بھارت کی سازشیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اسکی شرانگیزیاں اب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ کینیڈا میں بھی اسکی خفیہ ایجنسی نے بدمعاشی شروع کر دی اور اس نے خالصتان کے دو سکھ رہنماﺅں کو قتل کردیا۔ عالمی جریدے بھارت کو عالمی نمبرون دہشت گرد قرار دے رہے ہیں جبکہ امریکی برطانوی ارکان پارلیمنٹ اپنی اپنی حکومتوں سے اسے نکیل ڈالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر بھارت کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ وہ بدمست ہاتھی کی طرح ہر ایک کو اپنے پاﺅں تلے روندتا چلا جارہا ہے۔ لگتا ایسا ہی ہے کہ اس سٹیج کا سکرپٹ لکھنے والے نے اس ولن کا برا انجام پاکستان کے ہاتھوں ہونا لکھا ہے۔ ویسے تو پاکستان اسے کئی بار سبق سکھا چکا ہے مگر وہ بدمزہ نہیں ہو رہا۔ اگر بھارت کی غنڈہ گردی کو نکیل نہیں ڈالی گئی تو اس سٹیج (دنیا) کی تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ بھارت کو ڈائریکشن دینے والے ڈائریکٹروں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ 
٭....٭....٭
ٹیکس ملے تو سڑکیں‘ پل اور سکول بنیں گے‘ جسٹس فائز۔
اس وقت قوم اپنے ناکردہ گناہوں کی ایسی سزا بھگت رہی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں نے انہیں ایسے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے جہاں انہیں خود کھڑا ہو کر قوم کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ قاضی القضات ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ قوم سے یوٹیلٹی بلوں‘ پٹرول اور اشیائے ضروریہ پر بھاری ٹیکسوں کی مد میں جو اربوں وصول کئے جا رہے ہیں‘ وہ رقم کہاں جا رہی ہے۔ نہ ملک میں پل بنائے جارہے ہیں‘ نہ سڑکیں‘ نہ ڈیمز‘ نہ سکول حتیٰ کہ معیشت میں بھی سدھار نہیں آرہا تو پھر جبراً قوم سے اتنے ٹیکسز کیوں وصول کئے جا رہے ہیں اور موصول ہونے والی رقم کس کی جیب میں جا رہی ہے۔ قوم کو تو انہوں نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ اس مد میں ان سے کوئی ادنیٰ سا سوال بھی کر سکے۔ شنید یہی ہے کہ انکی پریس کانفرنسوں میں بھی سلیکٹڈ سوالات پوچھے جاتے ہیں تاکہ ان کی جبینیں شکن آلود نہ ہوں۔ بجلی‘ پٹرول اور گیس کی مد میں قوم ٹیکس دے دے کر ادھ موئی ہو چکی ہے اور عملاً قبر تک جا پہنچی ہے اور اب پھر گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کو ناگزیر سمجھا جا رہا ہے۔ ارے! اب تو بے چارے عوام میں مزید مہنگائی برداشت کرنے کی سکت بھی باقی نہیں رہی‘ انکے جسم پر صرف ایک لنگوٹی رہ گئی ہے‘ وہ بھی چھیننے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ عوام احتجاجاً بل جلا رہے ہیں‘ مہنگائی کیخلاف سڑکوں پر نکل رہے ہیں‘ اپنے جگر گوشوں کو فروخت کر رہے ہیں‘ نوجوان نسل مایوس ہو کر بے راہ روی کا شکار ہو چکی ہے‘ چوری‘ ڈاکے‘ لوٹ مار عام ہے‘ کوئی شہری محفوظ نہیں‘ گھر کا کچن چلانا مشکل ہو چکا ہے‘ بالخصوص تنخواہ دار اور مزدور طبقے کا تو کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ گھر کے تمام افراد محنت مزدوری کرکے بھی بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی نہیں کر پا رہے۔ 
 اگر قوم کو اسی طرح تنگ کیا جاتا رہا‘ ان پر بجلی‘ گیس کے بھاری بل تھونپے جاتے رہے‘ تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اگر وہ بجلی و گیس کا استعمال کرنا ہی چھوڑ دیں تو پھر کہاں سے بھاری بل اور ٹیکسز وصول کئے جائیں گے۔ جب تک قوم کے ساتھ ہونیوالی ان زیادتیوں کا سخت نوٹس نہیں لیا جاتا‘ غریب کے حالات میں سدھار نہیں آسکے گا۔ فی الحال سڑکیں‘ پل اور سکول چھوڑیں‘ غریب کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا سوچیں جو غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکا ہے۔ غریب کھڑا ہوگا تو ملک بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائیگا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...