نغموں سے نوحے تک

اپنے بچپن میں ہم نے بہت خوبصورت زندگی گذاری۔ پرائمری سکول میں پڑھتے تھے سکول جاتے ہی وہ”ٹاٹ“ جھاڑ تے جن پر بیٹھ کر ہم نے سارا دن پڑھنا ہوتا تھا۔ پھر کلاسیں شروع ہوجاتیں۔ کچھ دیر بعد قطار میں لگ کردودھ بھی پیتے۔ جی ہاں، ہمارے سکول میں امریکی خشک دودھ بھی آتا جسے کچھ سینئر کلاس کے بڑے لڑکے تیار کرتے۔ اورہم اپنی توانائی میں اضافہ کرتے بلکہ کئی بار تو ہمیں تقریبا ایک ایک کلو کے امریکی مکھن کے ڈبے بھی ملتے۔”کچی اور پکی“ کلاس سے ہوتے ہوئے ہم پانچویں کلاس میں پہنچ گئے مگر ماہانہ فیس ایک آنہ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پھر جب پرائمری سکول سے ہائی سکول گئے تو ایک بڑی خوشگوار تبدیلی دیکھنے کوملی کہ یہاں اب زمین پر بیٹھنے کی بجائے پڑھنے کیلئے ڈیسک ہوتے ہیں جن میں کتابیں رکھنے کی جگہ بھی ہوتی۔ اس کے علاوہ باقی سب کچھ وہی تھا جو پرائمری سکول میں تھا یعنی ٹیچر کی مار تھپڑ وغیرہ، ہماری وہی شرارتیں سکول سے بھاگنے کی وہی بغاوت، چھٹی کے لئے بہانہ سازیاں۔نئی چیز انگلش زبان تھی جو ہمیں چھٹی جماعت سے پڑھانا شروع کی گئی۔ مزید یہ کہ شہر کا ہر سکول کسی نہ کسی گیم میں یا دیگر سرگرمی میں خاص شہرت رکھتا تھا۔ گوجرانوالہ میں ہمارا اے ماڑی ہائی سکول ہاکی میں یکتا تھا۔ محبوب عالم ہائی سکول کاکرکٹ ٹیم پر کوئی ثانی نہیں تھا۔ گورنمنٹ ہائی سکول کی فٹ بال ٹیم بہت اچھی تھی۔ عطاءمحمد اسلامیہ ہائی سکول کے طلباءتقریری مقابلوں میں انعامات جیتتے۔ ان سب چیزوں سے ہمارا ذہن بھی وسیع ہوتا گیا۔ زیادتی مگر یہ ہوئی کہ سرکار نے اب ایک آنہ کی بجائے آٹھ آنے یعنی آدھا روپیہ فیس کردی۔ ہائی سکولوں میں ہی اکثر طلباءکوفلم بینی کاشوق چراتا تھا۔ اسی فلم بینی کا شوق، کھیلوں سے دلچسپی اور فن تقریر کی ابتداءلے کر ہم لوگ میٹرک کا امتحان پاس کرگئے اورکالج میں داخلہ لیتے وقت خیال آیا کہ اب خرچہ بہت بڑھ جائیگا۔ خرچہ بڑھا ضرور مگر کالج کی فیس کی حد تک یعنی اب آٹھ آنے کی بجائے پانچ روپے مہینہ ہوگئی اورکالج کا اپنا ہی ایک آزادنہ ماحول تھا۔ اب ٹیچر کی بجائے لیکچرار اور پروفیسر صاحبان سے ہم پڑھتے، کالج کی کنٹین بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ ہال میں تقریری مقابلے اوربین الکلیاتی مباحثے ہوتے۔ کالج کی گراﺅنڈ بہت بڑی تھی جہاں فٹ بال، کرکٹ، ہاکی، جمناسٹک اور اتھلیٹکس میں طلباءحصہ لیتے۔ کھیلوں کے سالانہ مقابلے بھی ہوتے اور فینسی ڈریس شو بھی۔ سٹیج ڈرامے بھی پیش کئے جاتے۔ میں نے خود انٹر کالجسٹ مباحثوں میں حصہ لینے کیلئے کالج کے خرچ پر کراچی سے اٹک تک اورنہ جانے کون کون سے شہروں تک سفر کیا۔ گولڈ میڈل جیتے اورٹرافیاں بھی حاصل کیں۔ زندگی کتنی حسین تھی، ایک ایک لمحے سے خوشیاں کیسے کشید کی جاتی ہیں، امنگ اور ترنگ کیا ہوتی ہے، ہر ہر چیز دلربا کیوں لگتی ہے، درخت کے سادہ سے پتوں میں بھی ایک نیاعالم کیوں نظر آتا ہے۔ سارا سارا دن کھیل کر بھی تھکتے کیوں نہ تھے، فلم کا ٹکٹ بارہ آنے میں کیسے مل جاتا، حزن وملال کیا ہوتا ہے اسکی خبرتک کیوں نہیں ہوتی تھی۔ حالانکہ ملک میں مارشل لاءتھا۔صرف اس لئے کہ امن تھا۔ اگرچہ مغربی پاکستان کی حد تک ہی سہی۔ قانون کی بالادستی ابھی قائم تھی۔ کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتیں لوگوں کی دسترس میں تھیں۔ اگر کسی کے پاس کار، ویسپا سکوٹر یا موٹر سائیکل ہوتی تو اسے یادہی نہیں رہتا تھا کہ اس میں پٹرول بھی ڈلوانا ہے، اگر ضرورت پڑی تو کہیں سے دس پندرہ کا ڈلوا کر مطمئن ہوجاتے۔ رہے بجلی کے بل یہ بھی ایسے ادا ہوجاتے کہ کسی کو اپنی جیب ڈھیلی ہونے کا احساس تک نہ ہوتا۔ بجلی چوری کا لفظ ابھی نہیں سنا تھا۔ گیس اگرچہ آچکی تھی مگر اس کا گھریلو بل تین ماہ بعد آتا اور وہ بھی چند روپوں میں۔ انڈسٹری خوب چل رہی تھی۔ روزانہ ملک بھی میں لگ بھگ تین نئی فیکٹریاں لگتیں۔ ایک ہفتے میں چالیس سے زائد نئی فلمیں سینماﺅں کی زینت بنتیں۔ عام لوگ بارہ آنے کاٹکٹ خریدتے اور دنیا جہاں کے غم اگر کوئی تھے بھی تو سینما میں پھینک کے خوش خوش واپس آجاتے۔ فیملی عدالتوں میں طلاق اور خلع وغیرہ کا کوئی کیس سالہا سال تک نہ آتا، ہاں کبھی کبھی کسی مرد کی طرف سے ”حقوق زن شوئی“ کا کیس آجاتا۔ کیا عالم تھا امن اور باہمی رشتوں کو نبھانے کا، بڑوں کی عزت کا۔ شہر میں پہلے تو کسی کے پاس ناجائز دولت ہوتی نہیں تھی، اگر ہوتی تو اس سے ہر کوئی اگاہ ہوتا۔ ایسے آدمی کو معاشرے میں کوئی عزت نہ ملتی اور وہ بھی لوگوں سے کٹ کر رہنے پر مجبور ہوتا۔ عوامی نمائندگی کے لئے اس کا کسی انتخاب میں حصہ لینا محال تھا۔ خیر انہی حالات میں گریجوایشن مکمل کرکے پنجاب یونیورسٹی جاپہنچا اور لا کالج میں جا داخل ہوا۔ اب ظاہر ہے اخراجات میں اضافہ تو ہونا ہی تھا۔ ایک تو لاہور کی رنگینیوں نے قدم قدم پر دامن کھینچنے کی کوشش کی اور دوسری طرف طلباءسیاست بھی۔ لاءکالج میں جنرل سیکرٹری کا الیکشن لڑا اور یونیورسٹی میں لیاقت بلوچ صاحب کے مقابلے میں بھی جنرل سیکرٹری شپ کا۔ مگرآپ حیران ہوں گے کہ ہر دوانتخابات پر میرا خرچہ ایک ہزار روپے سے زیادہ کانہ ہوا۔ ایک ہی معیار ہوتا تھا اپنے آپ کو منوانے کا اور وہ تھا فن تقریر بس یہی ہنر میرے کام آتا رہا اور اخراجات بچتے رہے۔ لاءکالج کی ماہانہ فیس بائیس روپے تھی اور ہاسٹل کا ماہوار کرایہ بیس روپے مہینہ سب ملا کر ماہانہ اخراجات تین صد روپے نصف جن کے ڈیڈھ سوروپے ہوتے ہیں مہینے بھر میں اٹھتے گویا ”کچی پکی“ جماعت سے لے کر ایل ایل بی کرنے تک ہم لوگ مفت میں علم حاصل کرکے اپنی اپنی عملی زندگیوں میں آگئے۔ ہمارے والدین کو بجلی کے بلوں نے ڈیپریشن کا شکار کیا نہ پٹرول اور دیگر گھریلو اشیاءکی خریداری نے۔ ہماری تعلیم نے تو ان کے بجٹ پر بہت مختصر اثر ڈالا۔ آج کیا ہے؟ یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہر کوئی مرچکا ہے اتنا مرچکا ہے کہ سوائے قومی انتخابات کے اب انکے زندہ رہنے کی نہ کوئی امید ہے اورنہ کوئی جواز۔
افسوس ناک :۔ گذشتہ ہفتے کپتان کی سیاسی جماعت کے ایک راہنما فاروق صاحب کے بیٹے کوجس طرح لمحہ لمحہ قتل کیاگیا اس کی واحد مثال اس سے قبل ماسوائے کربلا کے میدان میں معصوموں کی شہادت کے اورکوئی نہیں۔ مارنے والوں کی مائیں شائد معصوم بچے نہیں چڑیلیں اور جنات جنتی ہوں گی۔ اب کچھ بھی نہیں ہوتا، ماں باپ کے مرنے سے اولاد بچھڑنے سے، دولت کے اجڑنے سے، اب کچھ بھی نہیں ہوتا ، کچھ بھی تو نہیں۔
 

سلیمان کھوکھر-----چہرے

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...