باطنی روشنی سے سرشار نزیر قیصر

تحریر : ڈاکٹر زرقانسیم غالب دیولی
دنیا اچھی لگتی ہے رب اچھا لگتا ہے
اچھی آنکھوں والوں کو سب اچھا لگتا ہے
اس خوبصورت شعر کے خالق جس نے ناصرف اپنی شاعری کے زریعے اپنے مثبت رویے شفاف تخیل سے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی
05-01-1945 مرید کے میں پیدا ہونے والی فخر۔ پاکستان وسیع قلب و نظر کے مالک مثبت رویہ خوبصورت لب و لہجہ رکھنے والی خوبصورت شخصیت ناپ تول کر بات کرنا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو آپ کا خاصہ ہے
اپ کی 15 کتب اب تک شائع ہو چکی ہیں
سب سے پہلی کتاب انکھیں چہرہ ہاتھ 1968 میں چھپی
انکھیں چہرہ ہاتھ کی مقبولیت کا یہ حال رہا کہ دو تین سالوں میں ہی اس کے سات آٹھ ایڈیشن آئے کسی بھی شاعر کی پہلی تخلیق جو شعری مجموعہ پر مشتمل ہو اس پر اسے اتنی پزیرائی ملے یہ بہت بڑی بات ہے جو آپ کے حصہ میں آئی خاص طور پر پروین شاکر، ثروت حسین، جمال حسین، نسیم درانی یہ اس وقت کے سٹوڈنٹ تھے جن کے خطوط آپ کو موصول ہوئے یہاں پنجاب لاہور میں بھی نوجوان شاعروں پر بھی اس کا بڑا اثر ہوا آنکھیں چہرہ ہاتھ نے نوجوان شاعروں کے دلوں کو دھڑکایا اور اپنا خاص رنگ ان کے دل و زہن پر نقش کر دیا
اس کے بعد "گنبد۔ خوف سے بشارت" 1984
پھر "اے ہوا موزن ہو" 1992 میں جو کے نعتیہ مجموعہ ہے
تیسری دنیا" 1979 میں چھپی ایک طویل نظم ہے سیاسی پس منظر میں ہے
اور "محبت میرا موسم ہے" 2013 غزلیں اور نظموں پر مشتمل ہے
"محبت ہو بھی سکتی ہے" 2010 میں
"تمہارے شہر کا موسم" 1993 میں
"ذیتون دی پتی" 1984 آپکا پہلا پنجابی شعری مجموعہ جس پر آپ کو آدم جی ایوارڈ سے نوازہ گیا یہ ایوارڈ پاکستان کا بڑا ایوارڈ ہے جو آپ کا نصیب ہوا اس ایوارڈ کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ پہلے اردو کی کتابوں پر دیا جاتا تھا آپ کی تخلیق پنجابی شعری مجموعے کو یہ پہلا ایوارڈ ملا دنیائے ادب کا یہ ایک خوبصورت حوالہ ہے جو آپ کہ ذات سے منسلک ہے
"قسم فجر دے تارے دی" پنجابی شعری مجموعہ جس پر مسعود کھدر پوش ایوارڈ ملا لائق۔ تحسین
نثر کی کتابیں ہیں 1984 میں ہی "دانش کا بحران" اس میں مضامین ہیں
رحجانات 1984 کی تخلیق
آپ کی گیتوں کی ایک کتاب ہے "نئے عہد کے گیت"
"اے شام ہم سخن"
"دوپہر کا چاند" جو زیر۔ طبع ہے جس کی کمپوزنگ ہو چکی ہے پروف ریڈنگ کے مراحل طے کر رہی ہے
ھرے کرشنا" آپ کی ایک خوبصورت کتاب ہے کرشن کے جو لیکچر ہیں گیتا میں یہ ان کی فلاسفی کو بیان کرتی رہی طویل نظم ہے آپ سے پہلے خواجہ دل محمد نے اسے منظوم کیا رئیس امروہی نے بھی کیا تھا روشن لال نے بھی ان کے
علاوہ اور بھی کءلوگوں نے اسے منظوم کیا جبکہ 1950 کی دہائی میں خواجہ دل محمد نے اسے منظوم کیا جس میں وزن اور قافیہ گر کے رہ گئے ٹیکنیک پر زیادہ زور دیا اس وجہ سے جو گیتا کا فلسفہ تھا وہ احسن طرح سے ٹرانسلیٹ نہ ہو سکا جبکہ "دل گیتا" کے نام سے اسے کافی شہرت ملی اس کے علاوہ اسرار۔ گیتا پر جو دیباچہ لکھا ہے ڈاکٹر علامہ اقبال نے تو انہوں نے بھی اس کی جو فلاسفی ہے اسکی کافی تعریف کی ہے قیصر صاحب نے اسے منظوم کرتے ہوئے قافیہ ردیف اور شعری لوازمات کو زیادہ سامنے نہیں رکھا اس کی فلاسفی کو ٹچ کرنے کی کوشش کی جس سے یہ زیادہ بہتر نظم بن گءاسی 80 صفحات پر مشتمل یہ نظم پہلے اردو میں چھپی پھر یہ انگلش میں ٹرانسلیٹ ہوگءاب انگلش میں چھپے گی اس کے علاوہ قیصر صاحب کی غزلیں نظمیں انگلش میں ٹرانسلیٹ ہو چکی ہیں جو نیو یارک میں چھپ بھی چکی ہے اس پر ہماررے اسلام اینڈ انوائرنمنٹ پر متعدد کتابوں کے خالق محترم انجینئیر کرنل ممتاز حسین نے مضمون بھی پڑھا ادارہ زرقاپبلیکیشنز انٹرنیشنل کو یہ اعزاز حاصل ہے یہ پروگرام بھی ہم نے آرگنائز کیا سی ٹی این میں شاندار و باوقار پروگرام ہوا تھا ڈاکٹر ماہا نسیم نے بھی انگلش میں اپنے اظہار۔ خیال لکھ کر فریم کی صورت میں بطور۔ تحفہ بھیجا تھا جسے قیصر صاحب نےبڑی محبت سے قبول فرمایا اور سراہا
آپ کی غزل راقمہ کو بچپن سے بہت پسند ہے
دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
روح کے دریچوں سے دیکھنے والے شاعر نے بندی خدا کے دل میں اپنی ایک الگ چھاپ چھوڑی