(انگارے۔۔۔حیات عبداللہ)
عجیب جنوں خیز لوگ ہیں یہ ریسکیو 1122 والے بھی کہ دشتِ وحشت میں بھی گھبراتے نہیں، مسکراتے ہیں، پُرہول اور پُرخطر مقامات پر بھی مکمل شعور اور آگہی کے ساتھ انسانیت کی آس بندھانے چلے آتے ہیں، یہ ہمتوں کے دھنی، کتنی بلکتی آہوں اور سسکتے چہروں کی مسکان لوٹا چکے، کتنے ہی اپنی زندگی سے مایوس لوگوں کو یہ وفا کیش لوگ، شاداں و فرحان زندگی کی ڈگر پر گامزن کر چکے، لق و دق صحرا ہوں یا سیلاب کی طوفانی موجیں، انسانی خدمت کے سانچے میں ڈھلے یہ نوجواں، انسانی ہم دردی کے ایسے اسلوب سے آشنا ہیں کہ جو معاشرے میں شاذ ہی نظر آتے ہیں۔آگ اور خون کی جان کاہ صعوبتوں کے ہجومِ بے کراں میں بھی یہ دیوانے مسیحائی کرنے آ جاتے۔دن کے کسی پہر یا رات کے کسی بھی سمے، گرمیوں کی شِکر دوپہر ہوں یا ٹھٹھرتے موسموں کی یخ بستہ راتیں، جب اپنے خونی رشتے دار بھی کسی دکھ اور درد سے لدے شخص کا بوجھ اٹھانے سے کنی کترانے لگتے ہیں، ریسکیو 1122 کے مہر و وفا کے خوگر فوراً آپ کی دہلیز پر آپ کے ہر درد کا درماں کرنے آ کھڑے ہوتے ہیں، کتنی ہی بار آ اچانک آ دھمکنے والی افتاد میں بھی ریسکیو اہل کار زندگی کے دیے روشن کر جاتے ہیں۔کتنے ہی بجھتے اور آخری سانسیں لیتے چراغوں کی لَو میں زندگی کی نئی روح پھونک جاتے ہیں۔آج تک جتنے مصائب و آلام کے سامنے یہ ایمان آفریں لوگ سینے تان کر کھڑے ہوتے ہیں، ان کی مثال ملنا ہی محال ہے، یہ دریا¶ں میں کودنے کا ہنر بھی جانتے ہیں، یہ سیلابی ریلوں سے بھی لڑ جاتے ہیں، یہ ہر افتاد کے مقابل جان فشانی اور جاں سپاری کے ساتھ چھاتی تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر رضوان نصیر ان جنوں کیش نوجوانوں کے سپاہ سالار ہیں، ظاہر ہے یہ ان کی تربیت کے کمالات ہیں کہ ریسکیو 1122 کا ہر نوجوان ہر طرح کی آفات کے لیے ہر لمحہ اور ہر پَل مستعد ہوتا ہے۔
انسانیت کی فلاح کا کام کرنا ہر کسی کے بس میں ہوتا ہے نہ ہر کسی کو یہ سعادت میسر آتی ہے، انسانی جان کی قدر و قیمت کا اندازہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچا لی۔ریسیکو 1122 واحد ایسا ادارہ جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کی انسانیت کی خدمت میں صبح سے لے شام تک اور شام سے صبح تک انسانی خدمت کے بے کراں جذبے سے سر شار ہیں۔خاص طور پر ریسکیو کے وہ اہل کار جو فیلڈ میں کام کرتے ہیں ان کی عظمت کو جس قدر بھی سلامِ عقیدت پیش کیا جائے، کم ہے۔لودھراں میں ریسکیو 1122 کے ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر ماجد احمد ہیں جو تمام اہل کاروں کو اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مَیں نے اپنی تحصیل کہروڑ پکا کے انچارج محمد ارشد کو خود سیلاب میں گھرے ہُوئے لوگوں کو سیلابی ریلوں سے نکالتے دیکھا ہے، محمد ارشد اپنے علاقے میں ابتدائی طبی امداد کا شعور اور آگہی پیدا کرنے کے لیے کئی تربتی ورکشاپس بھی منعقد کروا چکے ہیں۔اللہ نے میرے ایک بیٹے ابوذر حیات کو بھی توفیق دی ہے وہ ریسکیو 1122 کا اہل کار ہے، جب وہ کسی بھی انسان کی خدمت کر کے یا کسی کی جان بچانے میں مدد کرنے کے بعد گھر لوٹتا ہے، تو دل ایمان آفریں خوشی سے نہال ہو جاتا ہے اور مَیں اللہ کا بے حد شُکر ادا کرتا ہوں۔
ریسکیو 1122 کے ان سپوتوں کی چھے ماہ کی تربیت انتہائی سخت ہوتی ہے، ان نوجوانوں کی تربیت میں انسانی مَحبّت، خلوص اور عزت کے جذبات کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، سیلابی ریلے ہوں یا زلزلے کی تباہ کاریاں، حتیٰ کہ عیدین کے مواقعے پر بھی یہ دیوانے اپنی خوشیوں کو تج کر عوام کے مصائب و آلام کم کرنے کے لیے جاں فشانی اور جراَت کے ساتھ اپنی بے مثال خدمات پیش کرتے نظر آتے ہیں، یہی نہیں متعدد بار یہ ریسکیو کے اہل کار، جانوروں کو بھی مختلف مقامات پر ریسکیو کرتے نظر آتے ہیں۔
پنجاب بھر میں ریسکیو 1122 کا قیام ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے، ہمارے شہر کہروڑ پکا میں ریسکیو انچارج محمد ارشد صاحب اپنی پوری ٹیم کے ساتھ نہ صرف سیلاب کے باعث تباہ حال لوگوں کے درد و غم بانٹ رہے ہیں بلکہ مختلف علاقوں میں لوگوں کو جمع کر کے ابتدائی طبی امداد کے طریقے بھی سکھاتے ہیں، سچی بات ہے جب یہ لوگ انسانی جان بچانے کے لیے اپنی جانوں کو خطرات میں ڈالتے ہوں گے تو اللہ کو ان پر بہت پیار آتا ہو گا اور جس خاندان کے کسی پیارے شخص کی زندگی کو بچانے کا یہ سبب بنتے ہوں گے، تو وہ لوگ ہمیشہ ریسکیو 1122 کے اہل کاروں کو دعا¶ں کی سوغات سے نوازتے رہتے ہوں گے۔کسی شخص کا درد سمیٹ لینا کوئی معمولی کام ہر گز نہیں ہے، کسی پریشان حال خاندان کی مسرتیں لوٹا دینا، اللہ کے خاص بندوں کا وتیرہ اور شعار ہے، کہروڑ پکا سمیت ہر جگہ سیلابی طوفانوں میں یہ لوگ اپنی مکمل توانائی کے ساتھ مل کر دکھیارے لوگوں کے درد و الم سمیٹ رہے ہیں، آج انتہائی کرب اور آزمایش کے لمحات میں ان کے کردار کی تابندگی اور تابانی مزید نکھر کر سامنے آ چکی ہے۔مَں سمجھتا ہوں کہروڑ پکا سمیت ملک بھر کے اہل ثروت کو انسانیت کی خدمت کے ایسے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور دکھ درد میں گھرے لوگوں کے کرب و ملال میں ان کے معاون بننا چاہیے، انسانیت کی خدمت کے اس بے کراں جذبے پر میرا سلامِ عقیدت ڈاکٹر رضوان نصیر کو، میری محبت آمیز دعائیں ڈاکٹر ماجد احمد کے لیے اور میری چاہتوں سے لبریز نیک تمنائیں محمد ارشد کے لیے۔