احسن اقبال کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے بریت
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل ڈویژن بنچ نے لیگی رہنماءوفاقی وزیر احسن اقبال کو نارووال سپورٹس سٹی کمپلیکس ریفرنس میں بری کرنے کا حکم سنا دیا۔ گزشتہ روز سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ اس میں کرپشن کہاں ہوئی؟ نامعلوم اخبار کی خبر اٹھا کر کارروائی شروع کر دی۔ یہ منصوبہ سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کی منظوری سے شروع ہوا‘ آپ نے بغیر معلوم کئے کہ سی ڈی ڈبلیو پی ہوتی کیا ہے‘ ریفرنس دائر کر دیا۔ کیا احسن اقبال بین الصوبائی رابطہ کے وزیر تھے ‘ انکے پاس کونسا اختیار تھا جس کا غلط استعمال ہوا۔ آپ نے پبلک پراجیکٹ روک اسے نقصان پہنچایا۔
پی ٹی آئی دور حکومت میں نیب کا ادارہ کرپشن کیسز کے حوالے سے کافی سرگر م رہا۔ بالخصوص اپوزیشن جماعتوں کیخلاف دائر ہونیوالے مبینہ کرپشن کے کیسز کو زیادہ فوکس کیا جاتا رہا جس سے حکومت کی جانب سے نیب کی آڑ میں انتقامی کارروائیوں کا تاثر ابھرتا رہا۔ ادھر سابق وزیراعظم عمران خان بھی کسی ڈاکو‘ چور کو نہ چھوڑنے اور انہیں این آر او نہ دینے کا اپنے پبلک جلسوں اور نشری تقریروں میں تواتر سے اعلان کرتے نظر آتے تھے جس سے یہی عندیہ ملتا تھا کہ اپوزیشن کیخلاف نیب کی سخت کارروائیاں حکومتی ایماءپر ہی کی جارہی ہیں۔ سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کی منظوری سے شروع ہونیوالے ناروال سپورٹس سٹی کمپلیکس کے معاملے میں اختیارات سے تجاوز کرنے کا کیس جولائی 2019ءکو سامنے آیا جس کے تحت احسن اقبال کی 23 دسمبر 2019 ءکو گرفتاری ہوئی جبکہ 25 فروری 2020 ءکو انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ 18 نومبر 2020 ءکو ان کیخلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔احتساب عدالت نے 23 فروری 2022 کو احسن اقبال کی بریت کی درخواست مسترد کی تھی جس کے بعد فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ گزشتہ روز اختیارات سے تجاوز ثابت نہ ہونے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے احسن اقبال کو نارووال سپورٹس سٹی ریفرنس میں بری کر دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے سے بادی النظر میں یہی ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نیب کو شفاف اور بے لاگ احتساب کے بجائے انتقامی کارروائی کیلئے استعمال کرتی رہی ہے جس کا مقصد اپوزیشن رہنماﺅں کی کردار کشی کرکے انکی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا۔ نیب نے سپورٹس سٹی کمپلیکس کا جھوٹا کیس بنا کر نہ صرف اس منصوبے کو نقصان پہنچایا بلکہ اپنی ساکھ بھی خراب کی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس کی روشنی میں نیب کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر یہ ادارہ انتقامی کارروائیوں کیلئے استعمال ہوگا تو اسکی ساکھ متاثر ہوگی اور اسکی وقت وقعت بھی ختم ہو جائیگی جو نیب کیلئے لمحہ¿ فکریہ ہونا چاہیے۔